سچ خبریں:انٹر ریجنل آن لائن اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر انچیف نے لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے فلسطینیوں پر اپنے دیوانہ وار حملوں سے صیہونی حکومت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے بعد بھی امریکہ اور مغرب کی جانب سے اس کی مسلسل حمایت اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے40 کروڑ عربوں کو میدان میں لا سکتی ہے۔
انٹر ریجنل آن لائن اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر انچیف عبدالباری عطوان نے اپنے اداریے میں مقبوضہ فلسطین کے مستقبل کی صورتحال نیز مزاحمتی گروہوں اور صیہونی فوج کے درمیان تنازعات کی مساوات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ فلسطینی مزاحمتی گروہ شہداء کا بدلہ لینے پر زور دے رہے ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی اعلیٰ سطح پر ہے، انہوں نے کہا کہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا جنین کیمپ پر حملہ نہ صرف یہ کہ ان کی کابینہ کو نہیں بچا سکے گا بلکہ اس سے صیہونی ریاست کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا کیونکہ کسی بھی جنگ کی صورت میں 40 کروڑ سے زائد عرب صیہونی نسل پرست اور فاشسٹ نیز اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف میدان میں آجائیں گے۔
عبدالباری کا تجزیہ کچھ اس طرح ہے:
مزاحمتی بٹالین کی تیاری اور ہم آہنگی کا عروج
جب فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کے پرانے اور نئے ترجمان دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ دس فلسطینی شہداء کے خون کا بدلہ لے کر رہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ضرور ہوگا اس لیے کہ اب تک ان دھڑوں نے جو وعدہ بھی کیا ہے اسے پورا کیا ہے جس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی لمحہ سیف القدس 2 شروع ہو سکتی ہے، یاد رہے کہ سنہ 2002 میں اسرائیلی افواج نے جنین کیمپ میں قتل عام اور جرائم کا ارتکاب کیا، ایسا جرم جس کے جواب میں قابض فوج کو متعدد جرنیلوں سمیت 26 سے زائد ہلاکتیں برداشت کرنا پڑیں، تاہم اس وقت چھوٹا غزہ بننے والے جینن کی مسلح بریگیڈز اور بٹالین کے قریبی شخص کے مطابق اس کیمپ میں ملسح گروہوں کی سب سے اہم اور سب سے بڑی محرک قوت اور ہدف انتقامی ردعمل ہے جو کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ تین ماہ قبل جب ہم نے بیروت میں جہاد اسلامی تحریک کے سربراہ زیاد النخالہ سے چار گھنٹے سے زائد ملاقات کی تو انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ مغربی کنارے میں مزاحمتی مجاہدین صیہونیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہر فلسطینی کے خون کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہیں لہذا اس وقت جبکہ تحریک حماس اور دیگر مزاحمتی بٹالین، بالخصوص فتحاوی الاقصیٰ شہداء، عرین الاسود، بلاطہ اور القسام کے درمیان اطلاعات، میڈیا اور ہتھیاروں کے تبادلے کے شعبوں میں ہر سطح پر ہم آہنگی اپنے عروج پر ہے،حالیہ شہدا کا بدلہ ضرور لیا جائے گا ۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی افواج جنہوں نے شہریوں کو ہلاک کیا یہاں تک کہ جینین ہسپتال، خاص طور پر بچوں کے شعبہ پر آنسو گیس سے حملہ کیا، دراصل مزاحمتی دھڑوں کو آباد کاروں کو نشانہ بنانے کے لیے ہری جھنڈی دے دی، مزاحمتی قوتوں نے یہاں تک کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور قبضے کی گرین لائن کے اندر شہروں میں بئر السبع، الخضیرہ، تل ابیب اور بارک میں آپریشنز جیسی کارروائیوں کا منصوبہ بنایا جس کے نتیجے میں تقریباً 20 اسرائیلی مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے، تاہم انہوں نے جب تین گھنٹے سے زائد عرصے تک جنین کیمپ میں مقیم فلسطینیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کیا تو اپنی افواج کو کسی جانی نقصان کی اطلاع دیے بغیر کیمپ سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، صہیونی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر سخت فوجی سنسر شپ کی وجہ سے میڈیا کو اس حملے کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات شائع کرنے سے روک دیا گیا ، تاہم عینی شاہدین نے تصدیق کی کہ ایک ڈرون مار گرایا گیا اور کچھ اسرائیلی فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب قابض حکومت نے کویت کے ساتھ جنگ کے دوران تل ابیب پر 39 عراقی میزائلوں سے ہونے والے نقصان کی تردید کر دی تو تیس سال بعد اس سے لڑائیوں میں اپنی ہلاکتوں کی اصل تعداد کے اعلان کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
نیتن یاہو اپنی کابینہ کو تو بچا نہیں سکیں گے بلکہ اسرائیل کو بھی تباہ کر دیں گے
اس حملے سے بنیامین نیتن یاہو اپنے اندرونی بحرانوں اور ان لاکھوں مظاہرین کی توجہ ہٹانا چاہتے تھے جو ان کی فاشسٹ کابینہ کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ تاہم نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے اس لیے جینن پر حملہ کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج اور اس کے بدلہ میں ہونے والی کاروائیوں کی وجہ سے بحرانوں میں شدت پیدا ہوگی جو شاید نہ صرف یہ کہ اس کی کابینہ کے زوال بلکہ صہیونی قبضے کے خاتمے نیز جعلی اور نسل پرست عبرانی ریاست کی تباہی میں بھی تیزی آئے گی، 2000 میں شروع ہونے والا پہلا مسلح فلسطینی صیہونی انتفاضہ چار سال تک جاری رہا جب کہ اس وقت اس کے ہتھیاروں میں راکٹ اور ڈرون شامل نہیں تھے،اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ عبرانی کابینہ فلسطینی نوجوان بریگیڈز اور طاقتور بٹالینز جو اوسلو معاہدے کو مسترد کرتی ہیں اور مزاحمت اور شہادت کے آپشن کو واحد آپشن سمجھتے ہیں، کا کتنے سال مقابلہ کر سکتی ہے؟
سیف القدس 2؛ جہاد اسلامی اور حماس ضرور جواب دیں گے
صیہونی حکومت کے اس جرم نے مزاحمتی دھڑوں بالخصوص غزہ کی پٹی پر غلبہ حاصل کرنے والی تحریک حماس کو ایک انتہائی مشکل امتحان میں ڈال دیا جس سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی،جیسا کہ گزشتہ مئی میں مغربی کنارے پر صیہونی فوج کے حملے میں ہوا جب جہاد اسلامی تحریک کو تین روزہ جنگ میں تنہا حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جس کے دوران وہ اپنے دو کمانڈروں کی گرفتاری کے بدلے میں حملہ آوروں پر چار ہزار سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغنے میں کامیاب رہی جبکہ حالیہ اسرائیلی حملے نے نہ صرف جنین میں جہاد اسلامی تحریک کو بلکہ حماس تحریک کو بھی نشانہ بنایا ہے کیونکہ نو فلسطینی شہداء میں سے چار حماس تحریک کے ارکان ہیں جس کے بعد ہمیں ان سوالوں کا جواب مل جائے گا کہ کیا حماس قابض فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی کے محاصرے کے خوف سے صیف القدس جنگ کی طرح جواب نہیں دے گی؟ حماس کس چیز سے ڈرتی ہے؟ کیا ان تحفظات کا تعلق غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ غریب فلسطینیوں کے محاصرے سے ہے یا گمشدہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والے مذاکرات سے جن کا کوئی نتیجہ میں نکلا؟
جنین کیمپ کے رہائشیوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی اور جنین کیمپ کی قدر ایک جیسی ہے اور جس جگہ پر قابض افواج حملہ کر رہی ہیں وہ ہمارا کا گھر ہے،یہ ہمارے بچے ہیں جو مردانگی اور جرات کے ساتھ دفاع کر رہے ہیں اگرچہ ان کے پاس کارنیٹ اینٹی ٹینک میزائل نہیں ہیں، کوئی بھاری توپ خانہ نہیں ہے اور اپنے دفاع کے لیے اتنی بندوقیں بھی نہیں ہیں،تجزیے بتاتے ہیں کہ اگلی دو راتیں قابضین کے لیے خطرناک ترین راتیں ہو سکتی ہیں یونکہ اگر حماس اپنے میزائلوں سے جواب نہیں دیتی ہے کہ جس کا امکان نہیں ہے تب بھی وہ دوسرے دھڑوں بالخصوص جہاد اسلامی کے ردعمل کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے، اس صورت میں جلد یا دیر ہمیں غزہ کی پٹی میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا حکام اور سکیورٹی فورسز 2007 کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ جنین پر وحشیانہ صیہونی حملے کے نتائج پہلے کی طرح نہیں ہوں گے کیونکہ اگلا مرحلہ مزاحمت کے ارتکاز اور اس کے ایسے ہتھیاروں سے مسلح ہونے کی وجہ سے بالکل مختلف ہو گا جو قابض ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے نمٹنے کے قابل ہیں،وہ جنگ میں دشمن کو جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں، دوسری طرف جس نے غزہ کی پٹی تک راکٹ، ڈرون اور کارنیٹ میزائل پہنچائے ہیں، وہ انہیں بنانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی کو مغربی کنارے میں بھی منتقل کر سکتا ہے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس اہم واقعے میں کتنا وقت لگے گا۔
نیتن یاہو وقت کے لیے اجنبی ہے!
نیتن یاہو سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اسلحے کی اسمگلنگ کو محدود کرنے کے بہانے اردن گئے کیونکہ وہ جنین کیمپ پر حملے اور اس کے انتہائی خطرناک نتائج سے بخوبی واقف تھے، اگرچہ بدقسمتی سے اردن کے دارالحکومت میں ان کے میزبانوں کی طرف سے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، لیکن ہمیں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایسے وفادار اور ذہین اسرائیلی دوست اور اتحادی ہونے پر مبارکباد دینی چاہیے، تاہم تناؤ کے لیے اس نازک وقت کا انتخاب کون کررہا ہے؟ جب عالمی جنگ شروع ہورہی ہے اور موسم بہار میں روسی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹینک یوکرین منتقل ہو رہے ہیں! مشرق وسطیٰ میں جنگ بھڑکنے کے ساتھ ساتھ400 ملین سے زیادہ عرب اس نسل پرست فاشسٹ ریاست کے بانی اور اس کے سب سے بڑے حامیوں کے خلاف ان کی جنگوں کے خلاف متحد ہو جائیں گے، ہمیں نہیں لگتا کہ صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا مشرق وسطیٰ کا ہنگامی دورہ اپنے مقاصد حاصل کرے گا اور تشدد کو روک سکے گا،جیسا کہ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ عرین الاسود، بلاطہ، جنین، القسام اور الاقصی کی بٹالین کو میدان میں اعلیٰ مقام حاصل ہے اور وہ رام اللہ یا عرب دارالحکومتوں میں صہیونیوں کے پرامن اور شائستہ میزبان نہیں ہیں۔