سچ خبریں: غزہ جنگ کے دوران سلامتی کونسل کی غیر موثریت اور پائیدار جنگ بندی کے لیے عالمی طاقتوں کا اتفاق رائے نہ ہونا اس بین الاقوامی ادارے میں ساختی اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
غزہ کی پٹی میں طوفان الاقصی جنگ کے آغاز کو 70 دن سے زائد گزر جانے کے بعد بھی عالمی اور علاقائی طاقتیں صہیونی جنگی مشین کی نقل و حرکت کو روکنے میں ناکام رہی ہیں،گزشتہ دو ماہ کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں پیراگراف کے تحت مسودہ قراردادیں پیش کرکے غزہ کی پٹی میں جنگی عمل پر براہ راست اور بالواسطہ اثر ڈالنے کی کوشش کی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سلامتی کونسل غزہ بحران کو حل کر سکتی ہے؟
ماہرین لوگوں کے خلاف جنگ اور انسانی تباہی کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل کی نا اہلی کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کا سب سے اہم عنصر واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی مکمل اور غیر مشروط حمایت ہے۔
جنگ کے پہلے دنوں سے وائٹ ہاؤس کے حکام نے صیہونی حکومت کی قومی ہنگامی کابینہ کے ارکان کے ساتھ مل کر اعلان کیا کہ حماس کی مسلسل حکمرانی اور غزہ میں عزالدین القسام بٹالینز کی موجودگی کی وجہ سے مختصر مدت میں امن اور جنگ بندی کا قیام ممکن نہیں،اس مسئلے کی وجہ سے امریکہ واحد ملک بن گیا ہے جس نے اس فلسطینی علاقے میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت کی قراردادوں کے مسودے کو ویٹو کیا، اسی مناسبت سے اس کالم میں ہم غزہ کی پٹی میں دیرپا جنگ بندی کے قیام میں سلامتی کونسل کی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
بڑی طاقتوں کا مقابلہ
اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے مطابق، سلامتی کونسل امن کے لیے کسی بھی خطرے، امن کی خلاف ورزی یا جارحیت کے عمل کی نشاندہی کرنے کی پابند ہے نیز بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے ضروری فوجی اور سویلین کاروائی کرنے کا حق ہے،کثیرالجہتی کے حامیوں میں سے ایک کے طور پر اور بین الاقوامی معاملات کو حل کرنے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے، ڈیموکریٹک بائیڈن انتظامیہ نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ واشنگٹن 20ویں صدی کی تیسری دہائی میں جارحانہ انداز اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اپنے حریفوں پر قابو پایا جا سکے۔
یوریشین اور ہند-بحرالکاہل کا خطہ فوجی کاری اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کا باعث بنتا ہے،جرمن انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ اکانومی کیل کے مطابق یوکرین میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکی حکومت نے کیف کو پچھتر ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی مالی امداد فراہم کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہیری ٹرومین کے دورِ صدارت میں مارشل پلان کے نفاذ کے بعد یورپی براعظم کے لیے ایسے مالی وسائل مختص کرنا ایک نادر واقعہ ہے۔ امریکہ اور چین روس کی قیادت میں یورو بحر اوقیانوس کے علاقے کے ممالک کے درمیان جغرافیائی تزویراتی مقابلے کی شدت ایک طرف مغربی بلاک کی طرف سے ابھرتی ہوئی طاقتوں کی تجویز کردہ تین قراردادوں کو ویٹو کرنے اور دوسری طرف امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ قرارداد کو ماسکو-بیجنگ کی طرف سے ویٹو کرنے کا سبب بنی ہے۔
متعصب سیاسی موقف اپنانے اور انسانی حقوق اور بین الاقوامی سلامتی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے حکام کا خیال ہے کہ مختصر مدت میں جنگ بندی قائم کرنے سے حماس کو فائدہ ہوگا،واشنگٹن کے غیر ذمہ دارانہ مؤقف کی وجہ سے روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان شائع کیا اور امریکہ کو سلامتی کونسل کی نااہلیت کا سبب قرار دیا، روس کی خارجہ پالیسی کے ذمہ دار ادارے نے مزید نشاندہی کی کہ واشنگٹن کے علاوہ اس بین الاقوامی تنظیم کے تمام اراکین نے فوری جنگ بندی اور غزہ کے عوام کے اجتماعی عذاب کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
واشنگٹن کی طرف سے تل ابیب کو دستخط شدہ خالی چیک
صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے واشنگٹن کی حمایت کا عروج جمعہ سترہ دسمبر کو مجوزہ قرارداد پر امریکہ کی منفی ووٹنگ کے دوران سامنے آیا جبکہ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے متحدہ عرب امارات کی طرف سے تجویز کردہ قرارداد کے حق میں مثبت ووٹ دیا لیکن امریکہ نے منفی ووٹ دیا اور برطانیہ نے سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو منظور کرنے سے روکنے کے لیے پرہیز کیا، سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے فعال ہونے کے بعد انتھونی گوٹیرس نے منعقد کیا۔
اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے امریکہ، اسرائیل کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر، جنگی جرائم، پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضے اور منظم طریقے سے فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کے حق میں 53 مرتبہ ویٹو کا حق استعمال کر چکا ہے، امریکی کی طرف سے اس طرح کی پالیسی اپنانے سے امریکی معاشرے کے بہت سے اشرافیہ کو نقصان پہنچا ہے،خاص طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند ارکان کو یہ مرکزی سوال اٹھانا چاہیے کہ آیا صیہونی حکومت مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکہ کے مفادات اور اہداف کی تکمیل کرتی ہے یا کیا واشنگٹن حکومت کی ایک پراکسی فورس بن کر مزاحمت کے محور کا مقابلہ کرنے اور جواز فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکہ عالمی برادری میں تل ابیب کے جرائم کے باوجود صیہونی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہے جبکہ پانی اور بجلی کاٹنا، خوراک اور طبی خدمات کی درآمد کو روکنا، ایندھن کی ترسیل کو محدود کرنا، اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانا، عام شہریوں کو قتل کرنا وغیرہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرائم ہیں اور بین الاقوامی عدالتوں میں ان کی پیروی کا امکان ہے۔
امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قراردادوں کو ویٹو کرنے کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واشنگٹن کی پالیسیوں پر تنقید کے لیے اپنا منہ کھولا اور ایک بیان شائع کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ کا ایسا فیصلہ غزہ میں شہریوں کے مصائب پر امریکیوں کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے غزہ میں بے گناہ لوگوں کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو کو انسانیت کے خلاف ووٹ قرار دیا،فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 18500000 سے تجاوز کرنا اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کے اندر رائے عامہ کو درست ثابت کرنے کے مقصد سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے،اس سے پہلے نیتن یاہو نے غزہ میں تین مقاصد کا اعلان کیا تھا کہ حماس تحریک کو تباہ کریں گے، اس کے سیاسی رہنماؤں اور فوجی کمانڈروں کو قتل کریں گے اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کریں گے لیکن ان کے وعدوں کی ناکامی سے ایسا لگتا ہے کہ صیہونیوں کی نظر شہریوں کے قتل کے ذریعے پیسہ کمانا ہے۔
سلامتی کونسل کے ڈھانچے کی ناانصافی
غزہ جنگ کے دوران سلامتی کونسل کی غیر موثریت اور پائیدار جنگ بندی کے لیے عالمی طاقتوں کا اتفاق رائے نہ ہونا اس بین الاقوامی ادارے میں ساختاری اصلاحات کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے،بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سلامتی اور دنیا کے ممالک کا فیصہہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے ووٹ یا عدم ووٹ پر منحصر ہو گیا ہے،اگرچہ سلامتی کونسل کے غیرمستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ مسئلہ اہم ترین بین الاقوامی ادارے کے بند ماحول کو ایڈجسٹ کرنے کا سبب بنا ہے، لیکن بدقسمتی سے ویٹو کا حق اب بھی توازن قائم کرنے اور عالمی سطح پر منظوری دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں جیسے برازیل، بھارت، جنوبی افریقہ، ترکی اور ایران کو مستقل نشستیں نہ دینا سلامتی کونسل پر ایک اور تنقید ہے، دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کو مدنظر رکھا جائے تو سلامتی کونسل میں ایک مسلم ملک کا ہونا ضروری لگتا ہے،یہاں تک کہ یہ نشست وقتاً فوقتاً (ہر چار سال بعد) مسلم طاقتوں میں سے کسی ایک کو دی جا سکتی ہے تاکہ عالم اسلام اہم بین الاقوامی معاملات میں سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ اپنے خیالات اور مرضی کا تبادلہ کر سکے،غزہ کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائی کے آغاز کو دو ماہ گزر چکے ہیں اور اس علاقے میں تقریباً 19 ہزار افراد مارے گئے ہیں لیکن سلامتی کونسل ابھی تک فلسطینیوں کا قتل عام روکنے اور مشرقی بحیرہ روم میں سلامتی کے قیام کے لیے ایک جامع قرارداد منظور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
خلاصہ
اسی دوران، سی این این کی رپورٹ ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان نے مالٹا کی قرارداد کے مسودے پر ووٹ دیا اور بیرونی مبصرین کو اس منصوبے کی منظوری کی زیادہ امید نہیں ہے، اس مسودے کے مطابق، حماس کو فوری اور غیر مشروط طور پر اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور دوسری طرف، تل ابیب کو غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی راہداری بنانے کا عہد کرنا ہوگا،اگرچہ اس منصوبے کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ صہیونیوں کو معصوم عورتوں اور بچوں کے قتل اور غزہ میں اہم انفراسٹرکچر کی تباہی کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سلامتی کونسل پر کس کی حکمرانی ہے؟ چین کا کیا کہنا ہے؟
اس بنا پر لگتا ہے کہ اس منصوبے کی شاید امریکہ مخالفت کرے گا اور مکمل نہیں ہو گا، ایسے میں اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی مرضی پر بھروسہ کرنے کے بجائے تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے عمل کو روکنے، اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ، مقبوضہ علاقوں میں توانائی بھیجنے پر پابندی اور شمالی محاذ میں جنگی کابینہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے مزاحمتی محور کی حمایت کریں۔