سچ خبریں:سعودی جیلوں میں صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی موساد کے تفتیش کاروں کی موجودگی اور ریاض کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں سے ان کی تفتیش کے بارے میں سعودی انسانی حقوق کے کارکنوں کا انکشاف آل سعود حکومت کے لئے ایک اور اسکینڈل کی صورت میں منظر عام پر آیاہے۔
حالیہ برسوں میں خلیج فارس کے ساتھ ساتھ کچھ عرب ممالک جن میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، اور بحرین شامل ہیں ، نے مسلمانوں ، خاص طور پر فلسطینیوں سے پیٹھ پھیر لی ہے جبکہ صیہونیوں کو راضی کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں یہاں تک کہ فلسطینی قیدیوں سے تفتیش کے لئے موساد کے تفتیش کاروں کے لئے سعودی جیلوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔
، گذشتہ سال سے جب صیہونی حکومت اور دو چھوٹے عرب ممالک متحدہ عرب امارات اور بحرین کے کے مابین وائٹ ہاؤس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دلالی کے ساتھ سمجھوتے کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اور دونوں عرب ممالک نےتل ابیب کے ساتھ کئی سالوں کےخفیہ تعلقات کے بعد علانیہ طور پر صیہونیوں کو گلے لگایاتو اس وقت علاقائی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے بار بار کہا کہ ان دونوں ممالک ، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی راہ ہموار کردی ہے جس کے بعد حالیہ برسوں میں ریاض اور تل ابیب کے رہنماؤں کے مابین خفیہ تعلقات کے شواہد ملے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے رہنما ابھی کسی موقع کی تلاش میں ہیں جو سعودی بادشاہ کی موت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ آل سعود سکیورٹی فورسز نے فروری 2017 میں اس وقت 81 سالہ ڈاکٹر محمد الخضری کوان کےبیٹے ہانی اور سعودی عرب میں مقیم 160 دیگر فلسطینیوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا جو حماس تحریک کے ممبر تھے ،ان پر حماس کی حمایت اور مدد کرنے کے الزام عائد کیا گیا، الخضری اور ان کے ساتھیوں کو ریاض سکیورٹی سروس نے حراست میں لیا جبکہ وہ حماس کے سعودی بیورو کے سربراہ ہیں اور وہ سعودی حکومت کی سے کئی سالوں سے سعودی عرب میں سرگرم ہیں۔
اس سے قبل یہ اطلاع ملی تھی کہ الخضری اور ان کے ساتھیوں کو فلسطینی حامی سرگرمیوں کے الزام میں سعودی سکیورٹی فورسز نے حراست میں لیا ہے اور ان سے تفتیش کی ہے لیکن سعودی انسانی حقوق کے کارکنوں کے ذریعہ آل سعود کی جیلوں میں حماس کے ممبروں کے ممبروں پوچھ گچھ کرنے کے لیے موساد کے تفتیش کاروں کی موجودگی کے انکشاف نے فلسطینیوں اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف آل سعود کے جرائم اورخیانتوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں مرآة الجزیره ویب سائٹ کے ذریعہ سعودی عرب میں فلسطینی قیدیوں کا ایک مجازی اجلاس ہوا جس میں سعودی حزب اختلاف کے ممتاز کارکنوں نے بھی شرکت کی اور انھوں نے سعودی عرب میں فلسطینی قیدیوں کی سنگین صورتحال کے بارے میں بات کی، اجلاس میں کہا گیا کہ ان قیدیوں کے حالات بہتر نہیں ہوئے اور سعودی حکومت ان کو رہا نہ کرکے اور ان کو قانونی اور بنیادی حقوق سے محروم کرکے واضح طور پر انسانی حقوق کی پامالی کررہی ہے۔
سعودی انسانی حقوق کونسل کے چیئرمین سعید بن ناصر الغامدی جو کہ لندن میں مقیم ہیں ، نے کہا کہ سعودی جیلوں میں غیر ملکی اور غیر سعودی تفتیش کار فلسطینیوں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں اور امکان ہےکہ یہ تفتیش کرنے والے موساد جاسوس ایجنسی کے ممبر ہیں، اس نظریہ پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں سے تفتیش کے دوران جو سوالات اسرائیلیوں نے پوچھے ہیں ،ان کا سعودی ملکی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔