سچ خبریں: بحرین کی الاشتر بٹالینز کی صیہونی حکومت کے خلاف کارروائی ایسے حالات میں اہم سمجھی جاتی ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام صیہونی حکومت کا حلیف اور دوست ہے۔
غزہ کی جنگ کے جاری رہنے کے ساتھ ہی بحرینی مزاحمتی گروہ نے صیہونی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کرکے اس حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی جنگ میں ایک نیا محاذ کھول دیا ہے، اس کالم میں بحرین کی مزاحمتی تحریک کی نوعیت اور القدس کی قابض حکومت کے خلاف ان کی کارروائی کے نتائج پر مختصراً گفتگو کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بحرین کا فلسطینی بچوں کے قاتل کو خوش آمدید کہنا فلسطینی عوام کی پیٹھ میں خنجر مارنا ہے:فلسطینی مزاحمتی تحریک
غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے تسلسل کے ساتھ لبنان سے حزب اللہ، عراقی مزاحمتی جماعتوں اور یمن سے انصار اللہ نے اسلامی ممالک کی خاموشی کے سائے میں صیہونی حکومت کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں۔
اس دوران صیہونی حکومت کے خلاف بحرین کی اسلامی مزاحمت کا اقدام اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ لبنان، عراق اور یمن کے برعکس بحرین کی حکومت کے صیہونی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اس ملک کی حکمراں جماعت آل خلیفہ قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا چکی ہے نیز یہ واحد عرب ملک ہے جو صیہونی حکومت کے دفاع میں یمن کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ہوا۔
اہم سوال یہ ہے کہ بحرینی مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کیسے کی اور اس کارروائی کے کیا پیغامات ہیں؟
بحرین کا مزاحمتی عمل؛ مزاحمتی تحریک میں فنکشنل تبدیلی
بحرین کی اسلامی مزاحمتی تحریک جس کا نام الاشتر بریگیڈ ہے، نے 2012 میں اپنے وجود کا اعلان کیا اور اس کی سرگرمی کا نقطہ آغاز بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف تھا۔
بحرینی حکام نے اس گروہ کی شناخت ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر کی ہے جو ملک سے باہر کام کرتا ہے، الاشتر بریگیڈ کو 2014 میں متحدہ عرب امارات، کینیڈا، مصر، سعودی عرب اور کویت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا نیز امریکہ نے بھی 2018 میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل کیا، اگرچہ یہ گروہ گزشتہ سالوں میں سرگرم نہیں تھا لیکن اس نے حال ہی میں جنوبی مقبوضہ فلسطین میں ایلات بندرگاہ پر ٹرک نیٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کی عمارت اور دیگر اہم اہداف کو نشانہ بنایا۔
اس کارروائی کو مزاحمتی تحریک کی کارکردگی میں تبدیلی سمجھا جاتا ہے جو عراق کی سرزمین سے کی گئی تھی، واشنگٹن میں بحرین کے سفارت خانے نے بھی اعلان کیا ہے کہ الاشتر بٹالین بحرین کی سرزمین سے باہر کام کر رہی ہیں، ابھی تک مزاحمتی گروہوں میں سے کسی نے بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے کسی دوسرے ملک کی سرزمین کا انتخاب نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی سرزمین سے صیہونی حکومت یا امریکہ کے خلاف فوجی کارروائی کی ہے۔
الاشتر بٹالین کے اس اقدام کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک ایسے ملک کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہونا جس پر آمریت کا قبضہ ہے اور اس کے صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اس کے باوجود اس ملک کے نوجوانوں کو مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی، اس کے علاوہ، بحرین جیسے ملک میں مزاحمتی گروپ کی تشکیل، جس کا ایک بند اور آمرانہ سیاسی ماحول ہے، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے محور کی پوزیشن میں توسیع ہو رہی ہےاور اسے غزہ میں موجودہ جنگ کے بارے میں اسٹریٹجک نتائج میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
صیہونی حکومت کے خلاف بحرین کی مزاحمتی کارروائی کے پیغامات
بحرین کی الاشتر بٹالین کی کارروائی کئی اہم پیغامات پر مشتمل ہے:
1۔ پہلا پیغام یہ ہے کہ بہت سے بحرینی عوام اور گروہوں کے نقطہ نظر سے اس ملک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ یہ صیہونی حکومت کے خلاف نئے مزاحمتی مرکز کی تشکیل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
2۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرب حکومتوں کی سرکاری پالیسی اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش ان حکومتوں کے لیے زیادہ تحفظ کا باعث نہیں بن سکتی، خاص طور پر جب صیہونی حکومت تعلقات کو معمول پر لانے کو فلسطین کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے موقع کے طور پر فائدہ اٹھائے۔
3۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ جو حکومتیں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاتی ہیں یا فلسطینیوں کے خلاف اس حکومت کے جرائم کی حمایت کرتی ہیں، وہ نہ صرف اپنے لیے زیادہ تحفظات پیدا کرتی ہیں، بلکہ خاص طور پر اپنے لیے اپنے لوگوں سے مزید خطرات پیدا کرتی ہیں، فلسطین کا دفاع عرب اور اسلامی ممالک میں لوگوں کے مطالبات کا ایک اہم حصہ ہے، یہ مسئلہ بحرینی مزاحمت کی تشکیل سے عملی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔
اس سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ارد گرد کے ممالک کو صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر مجبور کریں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گ اجبکہ ایسا نہیں ہے وہ غلط سوچ رہے ہیں، فرض کریں مختلف ممالک خصوصاً عرب ممالک صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لاتے ہیں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ یہ مسئلہ ان کی حکومتوں کے ل؛یے خطرہ ہو جائے گا یعنی جن حکومتوں نے صیہونیوں کے جرائم پر آنکھیں بند کیں اور انسانیت سوز جرائم کے باوجود اس حکومت سے دوستی کی تو ان ممالک کی عوام اپنی حکومتوں کی جان لے لیے گی اگر آج خطے کی قومیں صیہونی حکومت کے خلاف ہیں تو کل یہ اپنی حکومتوں کے خلاف ہوں گی۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانا کیوں ہے؟
4۔ چوتھا پیغام یہ ہے کہ مزاحمت کے تناظر میں ایک عوامی قوت کی تشکیل امریکہ کے لیے ایک نیا خطرہ اور مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کے چالبازی کے دائرے کی حد بندی بھی ہو سکتی ہے۔ بحرین کا دارالحکومت منامہ امریکی بحریہ کے 5ویں بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اگر امریکہ کی مزاحمتی تحریک کے خلاف پالیسی جاری رہتی ہے یا اس میں اضافہ ہوتا ہے تو الاشتر بٹالین جیسی افواج کی تشکیل مستقبل میں منامہ میں امریکی فوجی موجودگی کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
5۔ پانچواں پیغام یہ ہے کہ غزہ کے ساتھ صف بندی اور غزہ کے عوام کی حمایت ان ممالک کے عوام تک پھیل رہی ہے جن کی حکومتیں صیہونی حکومت کی دوست ہیں، بحرین کی اسلامی مزاحمتی تحریک نے 13 مئی کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ مسئلۂ فلسطین کی حمایت اور غزہ کے مزاحمتی عوام کی حمایت میں الرشرش شہر میں صیہونی لینڈ ٹرانسپورٹ کمپنی ٹریکنیٹ کے ہیڈ کوارٹر کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا ۔
6۔ صیہونی حکومت کے خلاف بحرینی مزاحمتی گروہوں کا چھٹا ایکشن پیغام بھی مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کی بالادستی کو ظاہر کرتا ہے خاص طور پر پچھلی دہائی میں امریکہ، بعض عرب ممالک، صیہونی حکومت اور بعض یورپی ممالک نے مزاحمت کے محور کا مقابلہ کرنے اور اسے مغربی ایشیائی خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن اب صیہونی حکومت کے خلاف بحرین کی مزاحمتی کارروائی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کوششیں نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت اب بھی آگے بڑھ رہی ہے۔