سچ خبریں:پاکستان کے دارالحکومت میں قائداعظم یونیورسٹی کے پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ سرحدی منصوبوں کا حالیہ استعمال خاص طور پر سرحدی منڈی کا فعال ہونا، ایران اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات میں ایک نئی خوشحالی ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات اور اقتصادی تعاون کے ایک اور مرحلے کی عکاسی کرتی جس میں باہمی مفادات کے تحفظ اور دشمنوں کے خلاف جنگ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں پہلے رینک کی مالک اور ایشیا کی 100 ویں معروف یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسٹریٹجک امور کے سینئر محقق ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے اپنے ایک کالم جس کا عنوان تھا ’’پاکستان اور ایران؛اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے امید مندانہ اقدامات‘‘ میں لکھا ہے کہ سرحدی بازاروں کا قیام اور پاکستان کو بجلی کی برآمد کا منصوبہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے ایک نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے، جو گوادر پورٹ سمیت ہمسایہ سرحدی علاقوں کے لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کی جانب امیدوار ہونے کی نشاندہی کرتا ہے نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون مثبت راستے پر گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کی جانب سے حالیہ اقتصادی اور سرحدی منصوبوں سے ان کے درمیان سرحدی تجارت مضبوط ہوگی اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، اس کے علاوہ دونوں پڑوسی ممالک کی کوششوں اور منصوبوں سے بارڈر مینجمنٹ کے شعبے میں بھی بہتری آئے گی جو غیر رسمی تجارت، سمگلنگ، منظم جرائم بالخصوص منشیات کے مسئلے کو روکنے کے لیے ضروری ہے اس لیے کہ اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے سماجی و اقتصادی حالات کو بہتر بنائے بغیر، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے گھناؤنے رجحان پر قابو پانا اور سب سے اہم دہشت گردوں اور مشترکہ سرحدوں کی سلامتی میں خلل ڈالنے والے عناصر کا خاتمہ ایک خواب ہے، اس لیے اسلام آباد کو ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تہران کی مدد کی ضرورت ہے۔
جسپال نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے کچھ دن قبل پشین-مند کے سرحدی بازار اور پلان-جیبڈ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا،اس بازار کا افتتاح چھ دیگر سرحدی بازاروں کے قیام کے لیے پہلا قدم ہے جو ایران اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ قائم کیے جائیں گے۔ درحقیقت، یہ سرحدی منڈیاں مقامی تجارت اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرتی ہیں، پڑوسی مقامی علاقوں کے درمیان کاروبار کو مضبوط کرتی ہیں اور مشترکہ سرحدوں کے پار قانونی تجارت کے حجم کو بڑھانے میں مدد کرتی ہیں،ایسا لگتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے سربراہان اپنی اقوام کے درمیان اقتصادی تعاون کے لیے پرعزم ہیں۔ تاہم ایران کا علاقائی اور عالمی نقطہ نظر پاکستان کے ساتھ اس ملک کے تعلقات کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ایک دہائی سے امریکی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران کے سویلین جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں، خاص طور پر دو سال قبل طے پانے والے چین ایران اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے پر کبھی نہ ختم ہونے والے تنازعے کی وجہ سے مستقبل قریب میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں کمی کے امکانات کم ہیں،ایران اور چین کے درمیان طویل مدتی تعاون کا معاہدہ چین کی 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے اقتصادی اور سکیورٹی شراکت داری کی تشکیل کرتا ہے، اگرچہ ان معاہدوں کی سرکاری تفصیلات شائع نہیں کی گئی ہیں تاہم مغربی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے 25 سالوں میں بینکنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، بندرگاہوں، ریلوے، صحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت درجنوں شعبوں میں 400 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کیہ تہران اور اسلام آباد کے باہمی تعلقات میں ایک اور یکساں طور پر اثر انداز ہونے والا عنصر خلیج فارس کے ساتھ عرب ممالک کی جغرافیائی سیاسی صورتحال ہے،اس تناظر میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان خطے میں جغرافیائی سیاسی مسابقت نے اسلام آباد کے لیے ان دونوں کے ساتھ متوازن یا غیر جانبدارانہ تعلقات کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا تھا، تاہم تہران اور ریاض کے تعلقات کے حالیہ معمول پر آنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ مفاہمت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہے اس لیے کہ امریکہ کے برعکس چین نے گزشتہ ایک دہائی سے اپنی اقتصادی طاقت کو دکھانے اور دھمکی کے بجائے اپنے پڑوس اور اس سے باہر کے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بیجنگ کی اقتصادی سرمایہ کاری نے چین کے سیاسی کردار میں اضافہ کیا ہے، ان اقدامات کے نتیجے میں چینی ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے، دونوں فریقوں نے ریاض اور تہران میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھول کر سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا،تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی اور سفارتی قربت یقینی طور پر خطے میں جاری پراکسی جنگوں کو بے اثر کر دے گی اور یمن، عراق اور شام میں امن سے پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے سماجی اور معاشی فوائد ہوں گے جو فرقہ واریت کے مذموم رجحان سے دوچار ہے۔
واضح رہے کہ پرامن ماحول کا پاکستان اور ایران کے درمیان اہم تعلقات پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔پاکستان ایران تعلقات کو منفی طور پر متاثر کرنے والے سب سے اہم عوامل میں سے ایک غیر ریاستی عناصر جیسے دہشت گرد گروپوں اور سمگلروں کی نقل و حرکت ہے۔ اس سال مئی کے آخر میں ایک دہشت گرد گروہ نے صوبہ سیستان و بلوچستان کے جنوب مشرق میں پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ تہران کا خیال ہے کہ اس جرم کے مرتکب افراد کی پاکستان میں پناہ گاہیں ہیں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی حال ہی میں پاکستان سے کہا کہ وہ مشترکہ سرحدوں کی حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کو دبائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان دہشت گرد گروہوں کا مقصد مشترکہ سرحدوں کی حفاظت اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کی سلامتی کو درہم برہم کرنا ہے،ایران کا صوبہ سیستان اور بلوچستان نسلی اور مذہبی تنوع کے ساتھ ایک منفرد جغرافیہ رکھتا ہے، اگرچہ چابہار بندرگاہ اپنی جیو اکنامک اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اس کی سرحدیں جنگ زدہ پاکستان اور افغانستان کے شورش زدہ بلوچستان سے ملتی ہیں، جس کی وجہ سے سکیورٹی کے چیلنجز بڑھ رہے ہیں،جیش العدل سمیت کچھ عسکریت پسند گروپ ایسی سرگرمیاں کر رہے ہیں جو پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کو منفی طور پر متاثر کررہی ہیں،پاکستان نے بلوچستان میں استحکام قائم کرنے اور ایران کے ساتھ اپنی سرحدیں محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے،درحقیقت پاکستان ایران کے تعاون سے ہی مشترکہ سرحد میں غیر قانونی سرگرمیوں کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم اور ایران کے صدر نے اپنی حالیہ ملاقات میں مشترکہ سرحدوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے باہمی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا،آخر میں، سرحدی بازاروں کا قیام اور ایران سے پاکستان تک بجلی کی ترسیل کا منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے ایک نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے، جس سے سرحد سے ملحقہ علاقوں میں لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کے بارے میں امیدیں بڑھ جاتی ہیں، جس میں گوادر بندرگاہ بھی شامل ہے۔