سچ خبریں: جب کہ امریکہ کی پچھلی نسلوں نے اس ملک کی حکومتوں کی طرف سے ان پر مسلط کردہ روش پر عمل کرتے ہوئے خود کو صیہونی حکومت کی حمایت کا پابند سمجھا، لیکن امریکہ میں نئی نسل جو اس ملک کے مستقبل کے رہنما ہیں، نے اس کا بالکل مخالف راست چنا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے غزہ کی پٹی میں نہتے فلسطینی عوام کے خلاف قابض حکومت کے جرائم کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں ایک زبردست احتجاجی تحریک غزہ سے متعلق اہم صورتحالوں میں سے ایک بن گئی ہے، اس سلسلہ میں عالمی میڈیا میں جنگ، اور متعدد تجزیے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی نوجوان نسل اپنے اسرائیل نواز والدین کے برعکس فلسطینیوں کے حامی کیوں ہے؟
اسی تناظر میں الجزیرہ چینل نے محمد المنشاوی کے لکھے ہوئے ایک کالم میں صیہونی حکومت کے خلاف امریکی طلبہ کی بغاوت کے اس حکومت کے ساتھ تعلقات کے مستقبل پر اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔
صہیونیوں کے خلاف اشرافیہ کے اٹھ کھڑے ہونے سے امریکی معاشرے کو پہنچنے والا صدمہ
اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ جب صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی پر جارحیت شروع کی تو امریکیوں کی اکثریت نے اسرائیل کی حمایت کی، لیکن یورپی ممالک کی طرح امریکہ کی رائے عامہ میں بھی گزشتہ چھ مہینوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور ان میں سے اکثریت فلسطینی عوام کے خلاف اس تباہ کن صہیونی جنگ کے ہیں۔
یہ بات سروے میں اور امریکہ کے بڑے شہروں کی سڑکوں میں چلنے والی تحریکیں اور مظاہروں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے جس کے بعد امریکی حکام غزہ جنگ کے حوالے سے ظاہری طور پر ہی سہی لیکن اپنا لہجہ بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن جنہیں آئندہ امریکی انتخابات میں اپنی پوزیشن دباہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ،صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کاروائیوں پر نظرثانی کے لیے دباؤ ڈالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس دوران، گزشتہ ہفتوں کے دوران امریکہ میں طلبہ کی ایک بہت بڑی تحریک جو اس ملک کی سینکڑوں یونیورسٹیوں تک پھیل چکی ہے اور اس کی قیادت ہارورڈ، کولمبیا، ییل اور میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جیسی مشہور اور باوقار یونیورسٹیاں کر رہی ہیں،غزہ کی پٹی کے خلاف قابض حکومت کی بربریت اور امریکی حکومت کی حمایت امریکی عوام کے احتجاج کے عمل میں ایک نئی اور موثر حرکت پیدا کرتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر امریکی خاندانوں کی خواہش ہے کہ ان کے بچے ممتاز یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں جن میں اس وقت صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکیں دکھائی دے رہی ہیں اور وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ان یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل افراد ہی دراصل امریکہ کا مستقبل بناتے ہیں اور اس ملک کے مستقبل کے رہنما بنتے ہیں۔
امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کو دبانا
رپورٹ کے مطابق ان یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلباء پر جبر کا تسلسل اور جو بائیڈن حکومت کی طرف سے ان کے خلاف استعمال کیے جانے والے تشدد نے امریکی عوامی گروپوں میں غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
ایسی صورت حال میں جبکہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں آزادی اظہار رائے اور پرامن اجتماع کی آزادی کے مکمل حق پر زور دیا گیا ہے نیز امریکی حکومت آزادی اظہار رائے کے حق کے بارے میں بہت سارے دعوے بھی کرتی ہے، اس ملک کی باوقار یونیورسٹیوں کے طلباء اور پروفیسروں پر پولیس افسران اور نیشنل گارڈز کے وحشیانہ حملوں کی تصاویر امریکی عوام کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہیں اور ان یونیورسٹیوں میں سینکڑوں فلسطینی حامی طلباء کی گرفتاری نے امریکی معاشرہ کو حیران کر دیا ہے خاص طور پر اس طبقے کو جو صیہونی نواز لابیوں سے ناراض ہے۔
امریکہ میں طلبہ کی یہ بہت بڑی تحریک شروع ہوئی اور جاری ہے جب کہ کانگریس کے اندر بھی غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم اور ان کے لیے امریکی حکومت کی حمایت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، مثال کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند سینیٹر برنی سینڈرز نے ایک ٹویٹ میں امریکی طلباء پر یہود دشمنی کا الزام لگانے والے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نہیں مسٹر نیتن یاہو، یہ یہود دشمنی نہیں ہے، چھ ماہ سے زیادہ عرصے میں، آپ کی انتہا پسند کابینہ نے 34000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور 77000 سے زیادہ افراد کو زخمی کیا جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
یاد رہے کہ چند سال پہلے امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے محقق اور وال اسٹریٹ جرنل کے قلمکار والٹر رسل میڈ نے بوسٹن میں منعقدہ امریکی سیاست اور الہامی مذاہب پر ایک کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ امریکی پروٹسٹنٹ یہودیوں کی حمایت کرتے تھے، یہودی ابھرتے ہوئے ملک میں داخل ہوئے، اسرائیل کے قیام سے پہلے امریکہ کا وجود تھا، اس لیے یہ حیران کن نہیں تھا کہ 1948 میں امریکہ اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مذہبی پروٹسٹنٹ امریکیوں کا خیال تھا کہ یہودی منتخب لوگ ہیں اور کانگریشنل ریسرچ سروس کے اعداد و شمار کے مطابق، ایک صدی کے آخری تین چوتھائیوں کے دوران، امریکہ نے اسرائیل کی حمایت کی اور تقریباً 260 بلین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی۔
لیکن تمام حالیہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعلقات امریکی رائے عامہ کی تبدیلی کے سائے میں ڈوب رہے ہیں۔
امریکی طلباء کی تحریک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔
واشنگٹن میں کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کی نائب صدر ٹریتا پارسی نے صیہونی حکومت کے خلاف امریکہ میں طلبہ کی زبردست تحریک کے ردعمل میں ہارورڈ یونیورسٹی میں طلبہ کی اس تحریک کی منسلک تصویروں کے ساتھ ایک ٹویٹ شائع کرتے ہوئے امریکی یونیورسٹیوں میں پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں وضاحت کی اور کہا کہ اسرائیلی کابینہ کی دور اندیشی بہت عجیب ہے، یہ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ امریکیوں کی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ جو مستقبل کے اشرافیہ ہیں اسرائیل کو ایک نسل پرست اور وحشیانہ حکومت کے طور پر دیکھیں گے جس سے امریکی جمہوریت کو خطرہ ہے۔
دوسری جانب ہارورڈ انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکس کی جانب سے 14 اور 21 مارچ کے درمیان کرائے گئے سروے کے مطابق جن 2010 نوجوان امریکیوں نے میں حصہ لیا اور ان کی عمریں 18 سے 29 سال کے درمیان ہیں، ان میں سے 51 فیصد سختی سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے خواہاں ہیں،صرف 10 فیصد جنگ بندی کے خلاف ہیں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں پیدا ہونے والی امریکیوں کی نئی نسل کو گندی اور بدصورت جنگ کا تصور متعارف کرایا اور غزہ پر قابض حکومت کی جارحیت کے حوالے سے امریکیوں کی اس نسل کا موقف اس کی حد تک بدل دیا کہ وہ فلسطین کے حامی بن کر سامنے آئے ہیں جبکہ فلسطینی عوام کے لیے ان کی حمایت اور ہمدردی پچھلی نسلوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا یہ امریکہ ہی تھا جو انصاف اور مساوات کی اقدار کے بارے میں مختلف سوچ رکھتا تھا۔
مزید پڑھیں: کیا امریکی دوسرے ممالک کو امداد بھیجنے پر راضی ہیں؟
اس سے پہلے اسرائیل حق ہے،یہود دشمنی حرام ہے جیسے نعرے امریکی میدان میں چھائے ہوئے تھے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی نوجوان اسرائیل کو ایک نسل پرست اور وحشی حکومت سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں اسرائیل کے حامی آج اس ملک کی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وہ بہت خوفزدہ ہیں، خاص کر یہ کہ اس ملک کی نئی نسل بننے والے عرب اور مسلمان امریکیوں کی تعداد کے مقابلے میں امریکی یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے لہذا مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں امریکہ میں امریکی حکومت اور اسرائیل کے خلاف ایک نئی تنقیدی گفتگو کا انتظار کرنا چاہئے، جس کی قیادت امریکہ کی نئی نسل کرے گی اور یہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کے مستقبل کو بہت متاثر کرے گی۔