سچ خبریں: یوکرین کا بحران جو گزشتہ سال 26 مارچ کو مشرقی یورپی ملک پر روسی حملے سے شروع ہوا تھا، اب بھی دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے اور اب یوکرین کے مشرقی محاذ پر جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ یہ جنگ اب تک 60 لاکھ پناہ گزینوں تک پہنچ چکی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ ختم ہو گئی تو بحران میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔
تاہم کہانی کی تلخ ستم ظریفی یہ ہے کہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت میں امریکہ کا دوہرا رویے ہے اور اس رویے کا تضاد عالمی میڈیا اور مختلف ممالک کے عوام کی نظروں سے دور نہیں ہے۔
اس سلسلے میں کوئنسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیاتی ویب سائٹ Responsible State Craft نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کے واضح تضادات کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں اس مسئلے پر توجہ دی ہےجس کے کچھ حصے جاری رکھے جائیں گے۔
جمہوریت کے امریکی دفاع کی چھت اور ہوا
یورپ کو ہتھیار بھیج کر واشنگٹن جمہوریت کے لیے لڑنے میں ان کی مدد کر رہا ہے جو مشرق وسطیٰ میں آمرانہ عرب حکمرانوں کی حمایت کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان ممالک میں آزادی کی جدوجہد کو شکست دینے میں مدد کر رہا ہے۔ ایک طرف بائیڈن حکومت یوکرین کو مسلح کر رہی ہے اور دوسری طرف روس کے ساتھ براہ راست فوجی تصادم سے بھی گریز کر رہی ہے۔
چونکہ یوکرائن کی جنگ نے مشرق وسطیٰ کے سیاسی اور اقتصادی معاملات پر خاصا اثر ڈالا ہے، اس لیے مشرق وسطیٰ میں رائے عامہ نے ہمیشہ دنیا کے دو خطوں کے بارے میں بائیڈن کے نقطہ نظر میں ایسے واضح تضادات دیکھے ہیں۔
بائیڈن نے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی مدد کے لیے مختلف ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عرب آمروں کی جانب سے شہری آزادیوں کو دبانے کے وحشیانہ ریکارڈ کے باوجود واشنگٹن نے عرب آمروں کو اربوں ہتھیار فروخت کیے ہیں۔