🗓️
سچ خبریں: امریکہ کے یمن کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے اور گزشتہ ہفتوں میں 350 سے زائد بمباری کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد، بعض خبری ذرائع نے سفید خانے کی جانب سے زمینی فوجی کارروائی کی جانب ممکنہ حکمت عملی کی تبدیلی کی خبر دی ہے۔
بلومبرگ نیٹ ورک نے مطلع ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یمنی قوتیں، جو انصاراللہ کے مخالف ہیں، امریکہ اور خلیجی عرب اتحادیوں کے ساتھ بحیرہ احمر کے ساحلوں سے اس تحریک کو نکالنے کے لیے ممکنہ زمینی آپریشن پر بات چیت کر رہی ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے بھی رپورٹ دی کہ متحدہ عرب امارات سے وابستہ یمنی عناصر انصاراللہ کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر زمینی حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ حملہ امریکہ کے حالیہ فضائی حملوں کے سائے میں ہوگا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے مزید کہا کہ یمن میں اماراتی عناصر مغربی ساحل پر خاص طور پر الحدیدہ بندرگاہ جیسے اہم علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ انصاراللہ کی اقتصادی شریان کو کاٹا جا سکے۔
اس زمینی حملے کے طریقہ کار کے بارے میں سرکاری اور درست معلومات دستیاب نہیں ہیں، لیکن بعض ذرائع نے ممکنہ منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اس آپریشن میں ریٹائرڈ فوجیوں کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو جنگی مہارتوں سے لیس ہیں، تاکہ وہ یمنی قبائل کو انصاراللہ کے خلاف تربیت اور زمینی حملے کے لیے تیار کر سکیں۔
ایک اور آپشن امریکی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر آپریشن ہے۔ رپورٹس کے مطابق، یہ آپریشن پہلے امریکی فضائی حملوں سے شروع ہوگا، جس میں مارب کے مغرب و جنوب، الجوف صحرا اور الحدیدہ کے جنوبی علاقوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ان حملوں کا بنیادی مقصد انصاراللہ کے دفاعی محاذ کو کمزور کرنا ہے تاکہ معزول حکومت کی فوجیں بغیر کسی بڑی مزاحمت کے آگے بڑھ سکیں۔
امریکہ کے لیے زمینی حملے کی مشکلات
اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس یمن پر زمینی حملے کی طاقت اور اسلحہ موجود ہے، لیکن یمن نے ثابت کیا ہے کہ یہ کسی بھی بیرونی طاقت کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے جسے آسانی سے زیر نہیں کیا جا سکتا۔
انصاراللہ، شہری جنگوں میں تجربہ کار ایک عسکری گروپ کے طور پر، بیرونی فوجوں کے خلاف مزاحمت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ گروپ پیچیدہ فوجی کارروائیوں کو منظم اور انجام دے سکتا ہے، جو امریکی فوج کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
سعودی-اماراتی اتحاد کے خلاف ایک دہائی تک مسلح جنگ نے ثابت کیا کہ یمنی دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ انصاراللہ اب سعودی اتحاد کے حملے کے دور سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے اور اس نے زمینی، فضائی اور بحری محاذوں پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس نے یمن کے بڑے حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، بلکہ جدید اسلحہ اور غیر متوازن جنگی حکمت عملی کے ذریعے ایک طاقتور فوج میں تبدیل ہو چکا ہے۔
دوسری جانب، ریٹائرڈ فوجیوں کو استعمال کرنا بھی امریکہ کو اس کے اہداف تک نہیں پہنچا سکے گا۔ سعودی اتحاد میں بھی امریکی فوجیوں نے معلوماتی اور لاجسٹک مدد فراہم کی، لیکن وہ انصاراللہ کو شکست نہ دے سکے۔ اب بھی یہی تجربہ دہرایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، بڑے پیمانے پر آپریشن بھی یمن میں کامیابی نہیں دلائے گا۔ سعودی عرب، جس پر امریکہ زمینی حملے میں اتحادی کے طور پر بھروسہ کر رہا تھا، نے واضح کر دیا ہے کہ وہ انصاراللہ کے خطرات اور ممکنہ جوابی حملوں کے باعث اس آپریشن میں شامل نہیں ہوگا۔ اس لیے، اصلاح پارٹی، الدرع الوطن اور سعودی حمایت یافتہ گروپوں کی شمولیت بھی کم ہی ممکن ہے۔ نتیجتاً، صرف متحدہ عرب امارات ہی امریکہ کی غیرمستقیم مدد کر سکتا ہے۔
یمن کا پہاڑی اور گنجان آباد علاقہ بھی کسی بھی فوجی آپریشن کو مشکل بنا دیتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی بیرونی طاقت یمن پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکی۔
کسی بھی زمینی حملے سے یمنی عوام انصاراللہ کے ساتھ مزید متحد ہو جائیں گے، جو امریکہ اور عرب اتحاد کے خلاف ہے، جنہوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے انصاراللہ اور یمنی عوام کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی۔
مزید برآں، زمینی کارروائی سے امریکی فوجیوں اور یمنی شہریوں کی بھاری جانی نقصان کا خطرہ ہے، جس سے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید ہو سکتی ہے۔
امریکی مداخلت سے یمن میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، جو القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے سازگار ماحول بنا سکتا ہے۔ گزشتہ دہائی میں القاعدہ نے امریکہ کو نشانہ بنایا ہے، اور زمینی جنگ انہیں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا موقع دے سکتی ہے۔
یمن میں زمینی جنگ کی لاگت بھی امریکہ کے لیے بہت زیادہ ہوگی۔ صرف گزشتہ ایک ماہ کے فضائی حملوں پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ ہوا ہے، اور زمینی جنگ میں یہ لاگت مزید بڑھ جائے گی، جو ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک بڑا مالی بوجھ ہوگا۔
یمن پر حملہ آوروں کے لیے تاریک مستقبل
اگرچہ امریکہ زمینی جنگ کی تیاری کر رہا ہے، لیکن بعض ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن فی الحال زمینی حملے پر توجہ مرکوز نہیں کر رہا۔
بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر غبریال صوما نے المشاهد ویب سائٹ کو بتایا کہ امریکی حکومت میدانی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور خطرات بڑھنے پر اپنی حکمت عملی تبدیل کر سکتی ہے، لیکن فی الحال براہ راست زمینی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
امریکی امور اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اہاب عباس کا کہنا ہے کہ زمینی آپریشن کے بارے میں بات چیت محض قیاس آرائی ہے، اور ٹرمپ یا امریکی فوجی کمانڈروں کی جانب سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
صنعا کے رہنماوں نے بارہا کہا ہے کہ بحیرہ احمر میں ان کی کارروائیاں غزہ کے لوگوں کے دفاع میں ہیں، اور اگر صہیونی ریاست کا قتل عام بند ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے حملے روک دیں گے۔ لہٰذا، اگر امریکہ بحیرہ احمر میں استحکام اور فلسطین میں امن چاہتا ہے، تو سب سے آسان راستہ صہیونی ریاست کے مظالم کو روکنا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
امریکہ کے ساتھ معاہدے میں کوئی حفاظتی ضمانتیں شامل نہیں ہیں: زیلنسکی
🗓️ 27 فروری 2025سچ خبریں: جمعہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں یوکرین کے
فروری
ٹرمپ نے زیلنسکی سے زیادہ نیتن یاہو کو کیا ذلیل
🗓️ 8 اپریل 2025سچ خبریں: دی اکانومسٹ کے اسرائیلی صحافی آنشیل فیفر نے ٹرمپ اور
اپریل
سوڈان میں خانہ جنگی
🗓️ 7 مئی 2024سچ خبریں: اس ہفتے انگلینڈ کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں
مئی
نیب تیسرا ترمیمی بل 2022 بھی منظور
🗓️ 5 جولائی 2022اسلام آباد:(سچ خبریں)وفاقی کابینہ نے نیب تیسرا ترمیمی بل 2022 منظور کرلیا،
جولائی
قوم آئین، جمہوریت، قانون کی حکمرانی کےدفاع کی خاطر سڑکوں پر نکلنےکیلئے تیار رہے، عمران خان
🗓️ 1 اپریل 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی
اپریل
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت پر پیرس کے خلاف شکایات
🗓️ 24 ستمبر 2021سچ خبریں:جیسے جیسے یمن کے مختلف حصوں میں قحط پھیل رہا ہے
ستمبر
برکس، کمپاس کا رخ مغرب سے مشرق کی طرف موڑتا ہے: سعودی ماہر اقتصادیات
🗓️ 4 جون 2023سچ خبریں:سعودی عرب کے مالیاتی اور اقتصادی مشیر مجدبن احمد الصوائغ نے
جون
قیدیوں کے تبادلے کے نئے دور کی تفصیلات
🗓️ 22 فروری 2025سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے پینتیسویں
فروری