سچ خبریں:کابل ایئرپورٹ بم دھماکوں کے متاثرین میں 13 امریکی فوجیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خونی واقعے میں امریکہ کے کردار کو نظر انداز کرنا بے وقوفی ہےجبکہ مغربی استعمار اور صیہونی قابضین کی تاریک تاریخ جرائم سے بھری پڑی ہے جس میں عام شہری مغربی حکومتوں کے ایٹمی ، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے لیبارٹری چوہے بن چکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی عرب یا اسلامی ملک پر حملہ کرنے کا امریکی مقصد اس ملک کی عرب اور مسلم قوموں کے مفادات کو محفوظ بنانا یا جمہوریت اور انسانی حقوق کو وسعت دینا ، یا معاشی نشا ثانیہ کو بحال کرنا نہیں ہے ، بلکہ امریکہ اسرائیل کی بقا کو اس کے پڑوسی عرب اور اسلامی ممالک کو تباہ کرنے میں سمجھتا ہے، عراق ، شام ، لیبیا ، یمن ، سوڈان ، صومالیہ اور مصر کے سینائی علاقے کی صورتحال اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے اور امریکی تخلیقی افراتفری کےمنصوبے کی ایک جہت دکھاتی ہے۔
افغانستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، 2001 میں امریکی حملے کا پہلا اور آخری ہدف افغانستان کو خطے کے تمام ممالک میں آشوب اور افراتفری ایجاد کرنے کے مرکز میں تبدیل کرنا تھا اسی لیے امریکہ نے ان دو دہائیوں کے دوران افغانستان کے لیے جدید اور طاقتور قومی فوج کے قیام کی طرف کبھی قدم نہیں اٹھایا اورنہ ہی اس نے افغان عوام کو غربت سے بچانے کے لیے اس کی معاشی ترقی میں مدد کی ، یہ حقیقت اس طرح دیکھی جا سکتی ہے کہ طالبان نے افغانستان پر سکیورٹی فورسز کی کسی مزاحمت کے بغیر ایک ہفتے کے اندر کس طرح کنٹرول کرلیا اور بغیر کسی جھڑپ کے اس ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔
یادرہے کہ جب امریکہ کو ایسےمقبوضہ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کو اس نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے ، اسے مکمل غربت میں ڈال دیا ہے ، اس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے اور اس میں انتشار اور فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد ڈالی ہے ، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے ایک ایسے ملک کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں اس نے تکفیری اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے بیج بوئے ہیں، جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے تسلیم کیا ہے، یہ واضح ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے مشکوک انخلاء کی وجہ سے پیدا ہونے والا انتشار ایک خاص افراتفری ہے جس کا بغور مطالعہ کیا گیا ہے تاکہ کابل ہوائی اڈے بم دھماکے جیسے خوفناک دھماکوں کے لیے زمین تیار کی جا سکے اور افغان معاشرے کو تقسیم کیا جا سکے،واضح رہے کہ کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے غیر متوقع نہیں تھے اور بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں خبردار کیا تھا ، اس لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں جو دو دہائیوں سے افغانستان کی سلامتی پر توجہ دے رہی ہیں ، نے دھماکے کی توقع نہیں کی تھی۔
درحقیقت امریکہ ، صہیونی اور سعودی حکومتوں نے افغانستان میں افراتفری کے منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے داعش کو شام اور عراق سے منتقل کیا ہے، یہ بات یقینی ہے کہ افغانستان ، جہاں امریکہ نے بڑی مقدار میں جدید ہتھیار چھوڑے ہیں ، جوسعودی نظریے کے حال تکفیری-وہابی گروہوں کا گڑھ ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک خانہ جنگی کا آغاز کر رہا ہے جو ہنگامہ آرائی کر رہا ہے،وہ بھی ایک ایسی جنگ جو افغانستان کو روس ، چین اور ان تمام ممالک کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کرے گی جنہیں امریکہ اپنے ناجائز مفادات اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔