🗓️
سچ خبریں:ترکی کے صدارتی انتخابات کے اختتام اور موجودہ صدر کی جیت کے بعد سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سب سے اہم سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کن عوامل نے انہیں ناقابل تسخیر سیاستدان بنا دیا ہے۔
بہت سے اتار چڑھاؤ کے بعد آخر کار ترکی کے 2023 کے انتخابات رجب طیب اردگان کی فیصلہ کن فتح کے ساتھ ختم ہوئے اور بش تبہ محل ایک بار پھر انقرہ کے اس ناقابل تسخیر سیاست دان کی اگلے پانچ سالوں کے لیے میزبانی کرے گا۔
ترکی کے یہ صدارتی انتخابات اس ملک کی جمہوریت کی زندگی میں سب سے زیادہ غیر متوقع اور کشیدہ انتخابات رہے ہیں کیونکہ مقابلوں کے اس دور میں ترکی کے مقبول اور سیاسی معاشرے میں حقیقی معنا میں ایک گہری تقسیم دیکھنے کو ملی جہاں دو مختلف اسلامی اور سیکولر دو سیاسی نظریے آمنے سامنے تھے،تاہم ان سب کے باوجود یہ تصور کہ ترکی کے تجربہ کار سیاستدان، اردگان کو شکست ہو جائے گی، قدرے بعید از قیاس تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کے زلزلے کے بعد کے دور کے تمام تر معاشی بحرانوں اور مشکلات کے باوجود اس ملک کے صدر کو آج بھی ترکی میں ایک قابل قبول سیاسی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔
لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اردگان کی کامیابی اور ان کے حریف قلیچدار اوغلو کی شکست میں کون سے اسباب اثرانداز رہے؟،سب سے پہلے یہ کہنا ہوگا کہ اس اتخابات میں اردگان کو بھیی جیتنے کے لیے مشکلارت کا سامنا کرنا پڑا اور الیکشن دوسرے مرحلے تک پہنچ گیا جس کی وجہ قلیچدار کی مقبولیت میں اضافہ نہیں تھا بلکہ ترکی میں زلزلے کے دوران معاشی جمود اور کمزور انتظام تھا۔
1۔ لیکن پہلی اور سب سے اہم وجہ جس کی وجہ سے قلیچدار اوغلو کی شکست ہوئی ، حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ ان کا اتحاد ہے جسے قومی اتحاد کہا جاتا ہے، اس اتحاد میں حزب اختلاف کی چھ جماعتیں شامل تھیں جن کے درمیان نقطہ نظر اور رویے میں فرق اس اتحاد کے صدارتی امیدوار کے طور پر اوغلو کو انتخابات کے اگلے دن ہی مشکلات کا سامنا کر پڑتا جو عام لوگوں کے عدم اعتماد کا ایک اہم ترین سبب تھا کیونکہ یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ الیکشن کے اگلے ہی دن ان جماعتوں کے درمیان ملک کو سنبھالنے کے طریقہ کار میں شدید اختلافات پیدا ہوں گے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کے حالات ترقی و پیشرفت کی سمت نہیں بڑھیں گے بلکہ ترکی کو اردگان سے پہلے والا ملک بنا دیں گے
2۔ دوسری دلیل معیشت اور سلامتی کے مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ تھی،گزشتہ دو سالوں میں اردگان کی تنقیدی جماعتوں اور صحافیوں نے انتخابات میں ان کی شکست کے لیے میدان تیار کرنے کے لیے حملوں اور تنقید کا سہارا لے کر اقتصادی معاملے میں اردگان اور ان کی ٹیم کے انتظام پر سوال اٹھانے کی کوشش کی۔
3۔ تیسری وجہ اسلام پسند اور روایتی گروہوں میں اردگان کی مسلسل مقبولیت ہے،ترک معاشرے کا یہ طبقہ اردگان کے لیے بہت اہم ہے اور درحقیقت یہ طبقہ اپنی سیاسی زندگی کے لیے اردگان کا سب سے اہم اثاثہ ہے، اس لیے، پچھلے کچھ سالوں میں، انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس اسلامی طبقے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا جائے، اسی وجہ سے ان کی تقریروں کا ایک اہم حصہ ہمیشہ ان موضوعات پر ترتیب دیا جاتا ہے جو یہ گروپ چاہتا ہے۔
4۔ اس دوران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت کے دوران صنعتوں کے میدان میں ہونے والی ترقی کو اردگان کی فتح کے چوتھے عنصر کے طور پر فراموش نہیں کیا جانا چاہیے،مثال کے طور پر بیرقدار ڈرون کی پیداوار اور برآمد نیز موجودہ ترک حکومت کی جانب سے بیرقدار کمپنی کو مکمل تعاون ترکی کے لیے قومی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔
5۔ لیکن اردگان کی جیت کی حتمی وجہ انقرہ حکومت کی خارجہ پالیسی ہے، اردگان نے علاقائی اور مغربی حکومتوں کے ساتھ توازن کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کی پالیسیوں کو ترجیح دی ہے،ترکی کے صدر نے اگرچہ یورپی حکومتوں کے ساتھ سازگار تعلقات قائم کیے ہیں لیکن انھوں نے خلیج فارس کے علاقے کی حکومتوں کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات پر بھی توجہ دی ہے۔
خارجہ پالیسی کے میدان میں اردگان کی واحد غلطی شامی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کشیدہ کرنا ہے اگرچہ انتخابات سے چند ماہ قبل انھوں نے انقرہ اور دمشق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کی اور یہ مسئلہ ان کے ووٹوں کی ٹوکری بھرنے میں بے اثر نہیں رہا،البتہ ابوظہبی اور ریاض کے ساتھ انقرہ کے تعلقات دوبارہ شروع کر کے اردگان نے اپنے مخالفین کو تنقید کا موقع نہیں دیا۔
اس کے علاوہ روس یوکرین جنگ میں ایک بااثر اداکار کے طور پر انقرہ کی کوششیں اور اناج کے معاہدے کے حصول کے لیے ثالثی بھی گزشتہ دو سالوں میں اردگان کی خارجہ پالیسی کے ان کی ترجیحات میں شامل رہی ہیں،ہو سکتا ہے کہ اردگان کی کچھ علاقائی پالیسیاں اور نقطہ نظر دوسری حکومتوں کی پسند نہ ہوں، لیکن اس قسم کی پالیسی ترک شہریوں کے لیے قابل قبول اور مطلوب تھی۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ قلیچداراوغلو کی سب سے اہم غلطی ان کی امیدواری میں تھی، اردگان بخوبی جانتے تھے کہ اگر ان کا حریف قلیچداراوغلو ہے تو وہ اسے شکست دے سکتے ہیں، اسی لیے انتخابات سے پہلے وہ ہر بار اپنی تقریروں میں اسے مخاطب کرتے تھے،اے قلیچداراوغلو اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خود صدارتی امیدوار بنو۔
مشہور خبریں۔
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن
🗓️ 2 جولائی 2022راولپنڈی (سچ خبریں) شمالی وزیر ستان کے علاقے غلام خان کلے میں
جولائی
وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے 63 اے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی
🗓️ 1 اکتوبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 63
اکتوبر
سعودی عرب کی کھیلوں کے ذریعے اپنی امیج بحال کرنے کی بے سود کوشش
🗓️ 28 اگست 2022سچ خبریں:ایک برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب میں جبر
اگست
صیہونی اب تک غزہ کے عوام پر کتنا دھماکہ خیز مواد گرا چکے ہیں؟
🗓️ 11 نومبر 2023غزہ کی پٹی کے سرکاری اطلاعاتی دفتر نے اعلان کیا ہے کہ
نومبر
کشمیری ایک روز ضرور بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کریں گے، کل جماعتی حریت کانفرنس
🗓️ 28 مارچ 2024سری نگر: (سچ خبریں) بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموں وکشمیر میں
مارچ
تعمیراتی منصوبوں میں خورد برد کیس: فواد چوہدری کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 مارچ تک توسیع
🗓️ 11 مارچ 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جہلم میں
مارچ
سپریم کورٹ نے 62 (ون) (ایف) کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کردی
🗓️ 8 جنوری 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل
جنوری
پی ٹی آئی سمیت جو بھی جماعت حکومت بنائے گی اسے اقتدار منتقل کردیں گے، نگران وزیر اعظم
🗓️ 8 جنوری 2024اسلام آباد:(سچ خبریں) نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ
جنوری