پشاور: (سچ خبریں) پشاور ہائیکورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہدایت دی ہے کہ صوبے میں 9 مئی کے پُرتشدد مظاہروں میں مبینہ ملوث ہونے پر جو لوگ فوج کی تحویل میں ہیں، ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ایم عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوبائی ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید کو ہدایت کی کہ مشتبہ افراد کے بارے میں تفصیلی رپورٹ جمع کروائیں۔
عدالت نے 6 مشتبہ افراد کی جانب سے وکیل شاہ فیصل اتمان خیل کے ذریعے مشترکہ طور پر دائر درخواست کی اگلی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ضلع مردان میں مظاہرے کے دوران 9 مئی کو فوجی مراکز پر گولیاں چلانے اور جنگی ہیروز کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کرنے کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں فوجی حکام کی تحویل میں ہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں عدنان احمد، رحمت اللہ، یاسر نواز، شاکر اللہ، سعید عالم اور زاہد خان نے عدالت سے ان سمیت اس مقدمے کا سامنا کرنے والے دیگر 100 افراد کو ملٹری تحویل سے سویلین جیلوں میں منتقل کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی۔
انہوں نے استدعا کی کہ ایپکس کورٹ کی جانب سے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کو غیر آئینی قرار دینے کے بعد بھی فوجی حکام کی جانب سے ان کی مسلسل نظر بندی کو غیر قانونی قید قرار دیا جانا چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ حکومت خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نئے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر( ایکٹ 2023 کے تحت درخواست دائر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے تحت اپیل دائر کرنے کے 14 دن کے اندر سپریم کورٹ میں سماعت ہونی چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ درخواست گزار اور دیگر مشتبہ افراد کو مختلف علاقوں کی انسدادِ دہشت گردی کی متعلقہ عدالتوں کے حکم پر فوج کی تحویل میں دیا گیا۔
وکیل شاہ فیصل اتمان خیل نے اصرار کیا کہ 9 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے غیر قانونی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ درخواست گزاروں کو 9 مئی کو مردان پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا، جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس اور تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات شامل کی گئی تھیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ بعد ازاں ایف آئی آر میں پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئیں، جس میں درخواست گزاروں اور 500 دیگر نامعلوم افراد کے نام درج تھے۔
شاہ فیصل اتمان خان نے نشاندہی کی کہ درخواست گزاروں سمیت تقریباً 107 افراد کو گرفتار کیا گیا اور انہیں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سات آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن میں آرمی ایکٹ کی مختلف شقوں اور فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو چیلنج کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 23 اکتوبر 2023 کو جسٹس اعجا زالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمی کے واضح حکم کے باوجود درخواست گزار اور دیگر 100 مشتبہ افراد اب بھی فوجی حکام کی تحویل میں ہیں، اور انہیں متعلقہ سول تھانوں میں منتقل نہیں کیا گیا۔
شاہ فیصل اتمان خیل نے بتایا کہ کسی ملزم کو فوج کی تحویل میں رکھنا آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
درخواست میں وفاقی حکومت کو وزارت دفاع، سیکریٹری داخلہ اور دفاع، حکومت خیبرپختونخوا کو سیکریٹری داخلہ کے ذریعے اور صوبائی انسپکٹر جنرل آف پولیس کو فریق بنایا گیا ہے۔