وزیر اعظم کا قومی اور صوبائی ارکان کے لئے کروڑوں کا بڑا اعلان
اسلام آباد(سچ خبریں) عمران خان نے تحریک انصاف کے قانون سازوں کا اپنے حلقوں کے لئے کیا دیرینہ وعدہ اپنی حکومت کی تقریبا آدھی مدت ختم ہونے کے بعد پورا کیا اپنی حکومت کی تقریباً آدھی مدت مکمل کرنے کے بعد پورا کردیا انہوں نے عوام کی تحریک انصاف کے ووٹروں کی خاطر ہر رکن قومی اور صوبائی اسمبلیز کو 50 کروڑ کا دینے کا اعلان کیا ہے ۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اس اجلاس میں اپوزیشن کی تحریک، آئندہ سینیٹ انتخابات، براڈشیٹ کا معاملہ، 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان، کرک میں ہندو مندر میں توڑ پھوڑ کا حالیہ واقعہ، خیبرپختونخوا، تھرپارکر ترقیاتی پیکج اور پارٹی میں فیصلہ سازی میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کی واپسی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد ایک وزیر نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہر ایم این اے اور ایم پی اے کے لیے 50 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں مین ترقیاتی اسکیمیں شروع کرسکے،
اجلاس میں بہت سے شرکا نے ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ کیا جبکہ کچھ نے کابینہ میں ٹیکنوکریٹس کے کردار پر سوال اٹھایا، اس کے علاوہ یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنما جہانگیر ترین جو گزشتہ برس کے چینی اسکینڈل کے دوران ’بے جا‘ منافع حاصل کرنے کے الزام کے بعد پارٹی سے غائب ہوگئے تھے، انہیں پارٹی کے مرکزی دھارے میں دوبارہ لانا چاہیے اور آئندہ سینیٹ انتخابات کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کا رکن بنانا چاہیے۔
اس موقع پر اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں دراڑیں پڑنے کے بعد یہ تقریباً ختم ہوچکا ہے، ساتھ ہی وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’پی ڈی ایم عملی طور پر ختم ہوچکی ہے، اس نے لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام ہوگئی‘۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سنے جانے والے فارن فنڈنگ کیس کے ذریعے حکومت کے لیے مسائل کھڑے کرنا چاہتی ہے ’لیکن اپوزیشن خود اس گڑھے میں گر گئی جو اس نے ہمارے لیے کھودا تھا‘۔
ادھر دوران اجلاس پی ٹی آئی رہنما نورعالم نے وفاقی کابینہ میں ٹیکنوکریٹس کے کردار کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ ’یہ ٹیکنوکریٹس ایک دن چلے جائیں گے اور منتخب نمائندوں کو عوام کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
بعد ازاں ڈان سے گفتگو میں نور عالم نے تصدیق کی کہ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ کابینہ میں ٹیکنوکریٹس کے کردار کا جائزہ لیں۔
ان کے مطابق انہوں نے اجلاس میں کہا کہ ٹیکنوکریٹس کے علاوہ تمام وزرا کو بھی انکی ’کم‘ کارکردگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’گندم کا آٹا، دالیں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ (مارکیٹ میں) دستیاب نہیں ہیں جبکہ وزیراعظم کے مشیران معیشت میں استحکام کی ایک خوشنما تصویر پیش کر رہے ہیں‘۔
نور عالم کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے ان کی شکایات وزیراعظم کے لیے ناراضی کا باعث بنیں لیکن انہوں نے اس کا اظہار کیا کیونکہ وہ پارٹٰی کے ساتھ مخلص تھے۔
اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے فیصل آباد سے رہنما راجا ریاض نے مطالبہ کیا کہ آئندہ سینیٹ انتخابات لڑنے کے لیے پلان وضع کرنے کے لیے بنائے جانے والی کمیٹی کے اراکین میں جہانگیر ترین کو شامل کیا جانا چاہیے۔
اس معاملے پر جب وفاقی وزیر برائے اطلاعات سینیٹر شبلی فراز سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ راجا ریاض نے یہ مطالبہ کیا تھا لیکن یہ ان کی ذاتی رائے تھی۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے کچھ قانون سازوں خاص طور پر کراچی سے تعلق رکھنے والوں نے شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے تشکیل دیے گئے 1100 ارب روپے کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں عمل درآمد میں ان کے بقول’تاخیر‘ پر برہمی کا اظہار کیا۔
اس پر وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ پلان پر کام کیا جارہا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کراچی کے عوام کو حکومت سندھ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔
مزید برآں کچھ خواتین ایم این ایز نے ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ کیا لیکن ان کے مطابلے کو وزیراعظم نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’آپ پارلیمنٹ میں خصوصی نشستوں پر آئی ہیں‘، ساتھ ہی پوچھا کہ ’آپ کے پاس کوئی حلقہ نہی ہے تو آپ یہ فنڈز کہاں خرچ کریں گی۔