اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے ایس سی او کی کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کے 23ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی اس کی تمام شکلوں اور قسموں کی واضح اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔
بھارتی وزیراعظم کی میزبانی میں جاری ورچوئل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ایس سی او رکن ممالک کے خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے مشترکہ مفادات ہیں جب کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں معاشی ترقی کے لیے پیشگی شرط ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے، ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کے ساتھ پورے عزم سےمل کر لڑنے کی ضرورت ہے، ’کنکٹیویٹی ’ کو جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی ہے اس کے فروغ کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک معاشی خوشحالی، امن اور استحکام میں گیم چینجر ثابت ہوگا،ترقی یافتہ ممالک کوماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہئے، پاکستان رواں سال کے اختتام پر مواصلات سے متعلق ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرے گا۔
وزیراعظم نے قزاخستان کوتنظیم کی رکنیت ملنے پر مبارکباد دی، انہوں نے ایرانی صدر ابراہمی رئیسی کو بھی تنظیم کا مکمل رکن بننے پر مبارکباد پیش کی اورایران کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیا۔
وزیراعظم نے بیلا روس کو تنظیم کے آئندہ اجلاس میں مکمل رکنیت دینے کے فیصلے کا بھی خیرمقد م کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایس سی او اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا کومعاشی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو امن ، استحکام ، سلامتی اور ترقی کے حوالے سے اپنا کردار بڑھنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ کنکٹیویٹی جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت اختیار کرچکی ہے، کنکٹیویٹی کےلئے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، ٹرانسپورٹ کوریڈورز کی تعمیرکے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے سی پیک کومعاشی خوشحالی، امن اور استحکام کےلئے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیلٹ اینڈ روڈ کا اہم منصوبہ ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک منفرد جغرافیائی حیثیت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زون قائم کئے جارہے ہیں جو بندرگاہوں کے ساتھ منسلک ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان رواں سال کے اختتام پر مواصلات سے متعلق ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرے گا، انہوں نے زور دیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کودہشت گردی کے خلاف پورے عزم کے ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے پر ڈپلومیٹک پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہئے اور ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہئے کیونکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے سیاسی ایجنڈے کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی بھی مذمت کی، وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے کےلئے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کےلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد کےلئے آگے بڑھے، انہوں نے کہا کہ پرامن اورمستحکم افغانستان خطے میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کے حصول کےلئے بھی ضروری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایس سی او افغانستان رابطہ گروپ اہم کردار ادا کررہا ہے، عالمی مسائل کے حل کےلئے عالمی یکجہتی کی ضرورت ہے، انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کو اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کوماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کےلئے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، پاکستان نے گزشتہ سال ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا کیا، سیلاب سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے جب کہ پاکستانی معیشت کو30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔
وزیراعظم نے توانائی اورغذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غربت کے خاتمے کےلئے بھی عالمی برادری کو تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر ایس سی او سی ایچ ایس کے 23ویں اجلاس میں شریک ہوئے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کو ایس سی او کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھارت کے وزیراعظم نے ایس سی او کے موجودہ سربراہ کی حیثیت سے دی۔
کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں شرکت کرنے والے رہنما اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر غور و خوض کریں گے اور ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کی مستقبل کی سمت کا خاکہ بنائیں گے۔
بیان کے مطابق سربراہ اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے ایک اہم فورم کے طور پر اہمیت دیتا ہے اور خطے کے ساتھ روابط کو بڑھاتا ہے۔
یاد رہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی شہر گوا کا دورہ کیا جہاں انہوں نے روسی ہم منصب سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
بعد ازاں بلاول بھٹو نے بھارت میں ایس سی او کے اجلاس میں شرکت اور مقبوضہ کشمیر میں جی-20 پر سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ اپنے بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات نہیں کریں گے، اگست 2019 کے بعد ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ میرے لیے انفرادی طور پر اور دفتر خارجہ کے لیے بہت مشکل تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے، پاک-بھارت دو طرفہ مسائل اور ایس سی او کے تحت ہماری دو طرفہ جو ذمہ داریاں ہیں، اس حوالے سے یہ دورہ تعمیری اور مثبت تھا اور آگے جا کر ہمارے وزیر اعظم یعنی ریاست کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا۔