اسلام آباد: (سچ خبریں) محصولات کی وصولی میں کمی کے باوجود حکومت نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافے کے علاوہ خاطر خواہ الاؤنسز دینے پر کام شروع کر دیا ہے جس کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران وفاقی حکومت کے محصولات کی وصولیوں میں صرف 23 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 30 جون 2025 تک 129 کھرب اور 70 ارب روپے کے ہدف سے کم ہے۔
محصولات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اپنے معاہدے پر عمل کرنے کے لیے ہنگامی ٹیکس اقدامات متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہے جو منی بجٹ کے لیے ایک نئی اصطلاح ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ نومبر میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 78 ماہ کی کم ترین سطح 4.9 فیصد تک گرنے کے باوجود سرکاری ملازمین (سول اور مسلح افواج) میں بھی افراط زر میں کمی کے حکومتی بیانیے کو زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ وزیر اعظم آفس اور وزارت خزانہ کو مختلف اسٹیک ہولڈرز اور ملازمین کے گروپوں کی جانب سے باقاعدگی سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں، خاص طور پر ججز کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں حالیہ نمایاں اضافے کے بعد اضافی معاوضے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے رواں مالی سال کے دوران سرکاری ملازمین کو موجودہ الاؤنسز پر نظر ثانی یا نئے الاؤنسز دینے کے لیے 8 رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی میں اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی بھاری نمائندگی شامل ہے۔
اس کمیٹی میں سیکریٹری خزانہ، کابینہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، دفاع اور داخلہ کے علاوہ وزیر برائے اقتصادی امور (گریڈ 21 کے کئی افسران کے بیچ میٹ) اور وزیر مملکت برائے خزانہ اور ریونیو شامل ہیں۔
خصوصی کمیٹی کا واحد مقصد مالی سال کے دوران سرکاری ملازمین کو موجودہ الاؤنسز پر نظر ثانی یا نئے الاؤنسز دینے کے لیے فنانس ڈویژن کو موصول ہونے والی تجاویز کا جائزہ لینا ہوگا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی گرانٹ کا جائزہ لے گی اور سالانہ بجٹ کی منظوری کے وقت کابینہ کو سفارش کرے گی۔
گزشتہ سال جون میں تمام سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد گزشتہ ماہ ججز کے معاوضے میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا۔
سرکاری تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) نے ایک تفصیلی مطالعہ کیا، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے 19 لاکھ 20 ہزار ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی فراہمی پر 8 کھرب روپے سے زائد خرچ کیے جب کہ 6 درجن سے زائد قسم کی مراعات فراہم کی گئیں۔
تاہم اس اضافے سے ٹیکس دہندگان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم کی گئیں۔
پاکستان میں ان ملازمین کی تنخواہوں کی لاگت تقریبا 30 کھرب روپے ہے، اور پنشن پر تقریبا 15 کھرب روپے لاگت آتی ہے۔
’لائف ٹائم کاسٹ آف پبلک سرونٹس‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پروجیکٹ ورکرز، سرکاری کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد اور دیگر اداروں پر تقریباً 25 کھرب روپے لاگت آتی ہے جب کہ فوج کی تنخواہوں اور اجرتوں پر خرچ ہونے والی مجموعی رقم تقریباً 10 کھرب روپے بنتی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 1983 کے بنیادی پے اسکیل (بی پی ایس) میں متعدد ترامیم کی گئی ہیں، جس کے آغاز سے اب تک کل 12 اپ ڈیٹس نافذ کی گئی ہیں جب کہ 2022 میں تازہ ترین ترمیم کی گئی تھی۔
تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ترمیم جدید انسانی وسائل کے اصولوں پر مبنی نہیں تھی تاکہ مارکیٹ کے حالات اور جدید مینجمنٹ کی ضروریات کے ساتھ جدید سرکاری شعبے کی ترغیبات تیار کی جاسکیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی پی ایس نظام پورے سرکاری شعبے میں سوشلسٹ ون پے اسکیل ڈھانچے کے ساتھ جاری ہے جس میں چند معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں، لیکن پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کو غیر مالیاتی فوائد اور بہتر تقرریوں کے ساتھ ترجیح دی جارہی ہے۔
تکنیکی یا پیشہ ورانہ طور پر ہنر مند افراد گریڈ اور غیر مالیاتی فوائد کے لحاظ سے نظر انداز رہتے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی مراعات اور فوائد کے بارے میں مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ’جس طرح عام طور پر خیال کیا جاتا ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، درحقیقت، انہیں بہت کچھ ایسا دیا جاتا ہے جو ان کی تنخواہ کی سلپس پر کبھی ظاہر نہیں ہوتا۔
اعلیٰ گریڈ کے ساتھ تنخواہوں میں نقد الاؤنس، خصوصی مراعات، سرکاری رہائش کی سہولت کا تناسب سرکاری ملازمین کی مجموعی لاگت میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔
گریڈ 20 سے 22 کے افسران کی جانب سے ذاتی استعمال کے لیے سرکاری گاڑیوں کے استعمال سے مجموعی لاگت بنیادی تنخواہ سے 1.2 گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کہ طبی الاؤنسز اور میڈیکل بلوں کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’خصوصی مراعات اور مختلف الاؤنسز سرکاری ملازمین کی مجموعی لاگت میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں اور اگر ان کے بدلے پیسے حاصل کیے جائیں تو یہ سرکاری شعبے میں کم تنخواہوں کے مفروضے کو ختم کردے گا۔‘
عدالتی ملازمین کو سب سے زیادہ مراعات ملتی ہیں جب کہ سیکریٹریٹ اور دیگر وزارتوں کے عملے کو بھی ان کی بنیادی تنخواہ کا 150 فیصد الاؤنس کے طور پر ملتا ہے۔