اسلام آباد:(سچ خبریں) سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے سپریم کورٹ کے تحفظ کے لیے پرامن احتجاج کی اپیل دہراتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں وفاقی حکومت میں موجود ’غنڈوں‘ کو سپریم کورٹ پر قبضہ کرنے اور آئین کو پامال کرنے کے لیے سہولت فراہم کر رہی ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تمام شہری پرامن احتجاج کے لیے تیار رہیں کیونکہ اگر عدالتِ عظمیٰ اور آئین کو تباہ و تاراج کردیا گیا تو تصوّرِ پاکستان ہی دم توڑ دے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے پُرتشدد واقعات کی تحقیقات کے بغیر پی ٹی آئی کے تقریباً 7 ہزار کارکنوں، رہنماؤں اور خواتین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے، حکومت دراصل پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی جماعت پر پابندی لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
قبل ازیں عمران خان نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا کہ لندن پلان کھل کر سامنے آچکا ہے، میں قید میں تھا تو تشدد کی آڑ میں یہ خود ہی جج، جیوری اور جلاد بن بیٹھے، منصوبہ اب یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو زندان میں ڈال کر مجھے اذیّت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لے کر مجھےآئندہ 10 برس کے لیے قید کر دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد تحریک انصاف کی بچی کُھچی قیادت اور کارکنان کو بھی پوری طرح جکڑ لیں گے اور آخر میں پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی جماعت (پی ٹی آئی) پر پابندی لگا دیں گے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ گھروں کی حرمت پامال کی جارہی ہے اور پولیس نہایت بے شرمی سے گھر کی چار دیواری میں موجود خواتین سے بدتمیزی و بدسلوکی میں مصروف ہے، آج سے پہلے اس ملک میں چادر و چار دیواری کا تقدس کبھی یوں پامال نہ ہوا جیسا کہ یہ مجرم کر رہے ہیں، یہ لوگوں کے دلوں میں اتنا خوف بٹھانا چاہتے ہیں کہ جب یہ مجھے گرفتار کرنے آئیں تو لوگ باہر نہ نکلیں۔
انہوں نے لکھا کہ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ عوام کی جانب سے کوئی ردّعمل نہ آئے، انہوں نے 2 کام کیے ہیں، اوّل یہ کہ محض تحریک انصاف کے کارکنان ہی کو خوفزدہ نہیں کیا جارہا بلکہ عام شہریوں کے دلوں میں بھی خوف بٹھایا جارہا ہے، دوسرا یہ کہ میڈیا پر پوری طرح قابو پایا جاچکا ہے اور بزورِ جبر اس کی آواز دبائی جاچکی ہے۔
عمران خان نے عندیہ دیا کہ یہ پھر انٹرنیٹ سروسز معطل کردیں گے اور سوشل میڈیا، جو پہلے ہی جزوی طور پر چل رہا ہے، کو پوری طرح بند کردیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ میں اپنے خون کے آخری قطرے تک حقیقی آزادی کے لیے لڑوں گا کیونکہ مجرموں کے اس گروہ کی غلامی سے موت میرے لیے مقدّم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے باہر مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کا واحد مقصد بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مرعوب کرنا ہے تاکہ وہ آئینِ پاکستان کے مطابق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے باز رہیں۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں یاد دہانی کروائی کہ پاکستان پہلے ہی 1997 میں مسلم لیگ (ن) کے غنڈوں کو نہایت ڈھٹائی سے سپریم کورٹ پر عملاً حملہ آور ہوتے دیکھ چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک نہایت محترم چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹایا گیا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 9 مئی کو توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کے حوالے سے اہم ویڈیو شواہد بھی رات گئے ٹوئٹر پر جاری کیے۔
انہوں نے لکھا کہ (ویڈیو میں) مرکزی پنجاب کی ہماری صدر ڈاکٹر یاسمین راشد اور میری ہمشیرہ واضح طور پر مظاہرین کو جناح ہاؤس کو نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کر رہی ہیں۔
ویڈیو میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اور پارٹی کارکنان سے کور کمانڈر ہاؤس میں داخل نہ ہونے کی اپیل کرتے سنا گیا، انہوں نے کہا کہ ہم یہاں احتجاج کے لیے آئے ہیں، کارکنان ریلی میں شرپسند عناصر سے ہوشیار رہیں۔
سابق وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلا شک و شبہہ یہ ان لوگوں کی جانب سے ایک جال تھا جو اس لیے پھیلایا گیا کہ اس کی آڑ میں تحریک انصاف پر جاری کریک ڈاؤن میں شدّت لا سکیں اور مجھ سمیت ہمارے سینئر قائدین اور کارکنان کو جیلوں میں بھر کر اپنے اس وعدے کو پورا کر سکیں جو انہوں نے لندن پلان کے تحت نواز شریف سے کر رکھا ہے۔
دریں اثنا 9 مئی کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ زمان پارک میں ادا کردی گئی۔
عمران خان نے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے صرف اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کرنے کے لیے نکلے تھے لیکن ان پر براہ راست گولیاں چلا دی گئیں۔
انہوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا کہ بہت سے لوگ اس دوران شدید زخمی بھی ہوئے اور تشویشناک حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ پُرامن مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن کوئی بھی اس کی تحقیقات کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے اسے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی پرامن مظاہرین پر اس طرح گولیوں کی بوچھاڑ کی اجازت نہیں ہے۔