اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی سے میرا رابطہ ہے اور آرمی چیف کی تعیناتی کے بارے میں سمری جاتی ہے تو وہ مجھ سے مشورہ کریں گے۔
اے آر وائی نیوز کودیے گئے انٹرویو میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری کے حوالے سے سوال پر کہا کہ میں صدر سے رابطے میں ہوں اور وہ مجھ سے مشورہ کریں گے کیونکہ یہاں تو آرمی چیف کے بارے میں پوچھنے کے لیے وزیراعظم ایک مفرور کے پاس چلا جاتا ہے میں تو پارٹی کا سربراہ ہوں، وہ مجھ سے بالکل بات کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف اتنی دور سے اگر کسی کو آرمی چیف تعینات کرے گا تو وہ پہلے دن ہی متنازع ہوجائے گا کیونکہ وہ نوازشریف کا آدمی ہو جائے گا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں جب کوئی آرمی چیف تعینات ہوتا تھا تو ادارے کی حدود سے باہر نہیں نکلتا تھا لیکن نواز شریف کی پوری کوشش ہے کہ اپنا آدمی لائیں۔
عمران خان نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ ایک شخص جو ملک میں کرپشن کے بڑے کیسز میں ملوث ہو، عدالت سزا دے اور وہ جھوٹ بول کر ملک سے باہر چلا جائے تو کیا قومی سلامتی کے سب سے اہم ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کرنے کے لیے یہ شخص اہل ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف ملک سے باہر بیٹھ کر جو بھی فیصلہ کرے گا وہ پاکستان کی بہتری میں نہیں ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے ان کی نیت پر شک ہے کہ یہ لوگ اس لیے آرمی چیف کی تعیناتی نہیں کر رہے ہیں کہ ملک اور ادارے کی بہتری ہو مگر یہ اپنی ذات کے لیے سوچ رہے ہیں کہ کس طرح آرمی چیف عمران خان کو نااہل کرکے کونے سے لگائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف یہ امید لگا کر اپنا آرمی چیف لانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کو ختم کرے گا۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے میرٹ کو ختم کرکے تمام اداروں کو تباہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ فوجی ادارے کا ڈسپلن ایسا ہے کہ یہ ادارہ بچا ہوا ہے کیونکہ اگر قانون کی حکمرانی نہیں ہو تو اس سے ادارے تباہ ہوتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’میں نے تو یہ کہا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی میں مجھے کیا فکر ہوگی، جو میرٹ پر پورا اترے اسے تعینات کردیں کیونکہ مجھے کون سے کرپشن کیسز ختم کرنے یا الیکشن جیتنے میں ان کی مدد چاہیے ہوگی
انہوں نے کہا کہ برطانیہ اس لیے کامیاب ہے کہ قانون کی حکمرانی ہے، فوج کمزور اور ادارے مضبوط ہیں اس لیے اگر وہاں نیا آرمی چیف تعینات ہو تو چھوٹی سی خبر بھی نہیں چلتی مگر یہاں ایک سال سے یہی بحث چل رہی ہے کہ آرمی چیف کون بنے گا۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت والے کہتے ہیں کہ میں جنرل فیض حمید کو لانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ستمبر میں جب سے یہ ڈراما شروع ہوا ہے میں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ آرمی چیف کون بنے گا۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا مگر صدر عارف علوی اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم قانون کے اندر رہ کر کھیلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا ہوگا کہ اس نے ملک کو کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا مفاد یہ ہونا چاہیے کہ ملک ترقی کرے آگے بڑھے مگر انہوں نے چوروں کو لاکر مسلط کردیا ہے۔
سائفر اور بیرونی مداخلت پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے وہ سائفر کابینہ، قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کو پیش کیا جنہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کیا لہٰذا بیرونی مداخلت ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ عالمی میڈیا کو انٹرویوز کے دوران میں نے آگے کی بات کی تھی، میری حکومت گرائی گئی کوئی بات نہیں مگر میری ذات سے زیادہ ملک کے مفادات ہیں اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکا سے تعلقات ختم ہوں مگر ہم برابری کے تعلقات چاہتے ہیں ماضی کی طرح نہیں کہ ایک حکم پر جنگ میں شامل ہوجائیں۔
لانگ مارچ پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ حقیقی آزادی کی مارچ ہے اور اگر الیکشن بھی ہو جائیں تو یہ نہیں رکے گی کیونکہ ہم ملک میں انصاف اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے غیرملکی سازش کے جھوٹے بیانیے کے حوالے سے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بیان کو مسترد کردیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ سائفر قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے اس وقت پیش کیا گیا تھا جب وہ ابھی وزیر اعظم تھے اور بعد میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کمیٹی کے ایک اور اجلاس میں اس پر بات کی تھی۔
یاد رہے کہ جی ایچ کیو میں یوم دفاع اور شہدا کی پُروقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ایک جعلی بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی، اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے ساتھ ساتھ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان نے قبول کیا تھا کہ دستاویز کا لہجہ ’دھمکی آمیز‘ تھا اور ایک سازش رچی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو ڈیمارچ دینے کا فیصلہ کیا تھا، تو آخر غلط بیانیہ کیسے گھڑا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر عارف علوی نے اس چیئرمین عمران خان حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط بھی لکھا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ فوج کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ادارے کے اندر ناراضی بڑھ رہی ہے، گوکہ ایک جھوٹا بیانیہ بنایا گیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کی اقتدار میں آنے میں مدد کی لیکن وہ ہمیشہ ان لوگوں کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں جنہوں نے انہیں منتخب کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے عوامی حمایت سے پوری اسٹیبلشمنٹ اور 11 جماعتی اتحاد کو شکست دی اور اگلے انتخابات میں دوبارہ ایسا ہی کروں گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی کو اگلے چیئرمین عمران خان عام انتخابات میں برابری کی سطح پر مقابلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں لیکن مجھے پھر بھی عوام کی طاقت پر یقین ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ سیاسی نظام کو ایک ’بڑی سرجری‘ کی ضرورت ہے۔