اسلام آباد: (سچ خبریں) نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ گیس سیکٹر کے گردشی قرضے میں اضافے کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا جو پہلے ہی بڑھ کر 21 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات نگران وزیر توانائی محمد علی نے بتائی، انہوں نے آنے والے موسم سرما میں گیس فراہمی کے دورانیے کے حوالے سے صورتحال کی تاریک منظر کشی کی جس کے دوران فراہمی دن میں صرف آٹھ گھنٹے تک محدود ہوسکتی ہے۔
میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے محمد علی نے کہا کہ توانائی کے پورے شعبے کا موجودہ گردشی قرضہ بغیر سود کے 4500 ارب روپے ہے جس میں صرف بجلی کے شعبے کے 2300 ارب روپے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد گیس سیکٹر کے گردشی قرضے میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کی گئی کمنٹمنٹ کے مطابق حکومت گردشی قرض میں مزید اضافے سے بچنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے حوالے سے نگران وزیر نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر 2022) کے دوران قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں دوسری ششماہی (رواں سال جنوری تا جون) میں اضافہ کیا گیا لیکن اس اضافے میں سردیوں کے دوران گھریلو صارفین کو فراہم کرنے کے لیے مطلوبہ آر ایل این جی (ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس) کا احاطہ نہیں کیا گیا تھا۔
آئندہ دنوں میں گیس فراہمی کے منظر نامے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے قیمتوں میں اضافے کے باوجود صرف آٹھ گھنٹے روزانہ کی محدود سپلائی کا اشارہ کیا، مستقبل میں گیس کی کمی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے صارفین کو ایل پی جی پر منتقلی کا مشورہ دیا، انہوں نے مزید کہا کہ پائپ سے گیس کی فراہمی صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نئے گیس کنکشن پر پابندی جاری رہے گی۔
حکومت نے موسم سرما میں گیس بحران کو کم کرنے کے لیے دسمبر کے لیے دو ایل این جی کارگوز کا بندوبست کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت جنوری کے لیے بھی 2 کارگو بک کرے گی۔
محمد علی نے کہا کہ گیس کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے جب کہ ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن (ای اینڈ پی) کمپنیاں مالیاتی خطرات کی وجہ سے ملک چھوڑ رہی ہیں اور وفاقی حکومت کی مالیاتی مشکلات کی وجہ سے یہ صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تلاش اور گیس درآمد میں بھی رکاوٹ ہے۔
پائپ گیس کی محدود رسائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ملک کے صرف 30 فیصد خاندانوں کو فائدہ ہو رہا ہے جب کہ اکثر ک شہری علاقوں میں ایل پی جی یا دیہی علاقوں میں لکڑی اور گائے کے گوبر کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔