اسلام آباد: (سچ خبریں) آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی سے ان کے بیٹوں کی ٹیلیفونک گفتگو کرانے کے حوالے سے درخواست پر 10 اکتوبر کو رپورٹ طلب کر لی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیراز رانجھا عدالت میں پیش ہوئے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی بیٹوں سے ٹیلیفونک گفتگو کروانے کی نئی درخواست دائر کردی۔
وکیل شیراز رانجھا نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے قاسم اور سلیمان کی ٹیلیفونک بات کروانے کے نئے احکامات جاری کیے جائیں اور اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ٹیلیفونک ملاقات کروانے کے احکامات جاری کریں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ گزشتہ درخواست تو غیر موثر ہو گئی کیونکہ عمران خان اڈیالہ جیل منتقل ہو گئے ہیں۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اٹک نے گزشتہ بار کہا تھا کہ مجرمان سے ٹیلیفونک بات نہیں کروا سکتے لہٰذا سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو ٹیلیفونک بات کروانے کی تازہ ہدایات دے دیں۔
خصوصی عدالت نے اس حوالے سے رپورٹ طلب کر لی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل میں اپنے بیٹوں سے ٹیلیفونک بات ہوسکتی یا نہیں اور 10 اکتوبر کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
دوران سماعت جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور پی ٹی آئی وکیل شیرازرانجھا کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا اور جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے وکلا کو اٹک جیل کے حالات کے بارے میں حالات سے آگاہ کیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بتائے بغیر اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا، انہیں اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے حالات سازگار نہیں، ماحول اٹک جیل سے بہت مختلف ہے، اڈیالہ جیل میں 2200 ملزمان کی گنجائش ہے لیکن سات ہزار قیدی رکھے ہوئے ہیں، درجن مرغیوں کے دڑبے میں 32 مرغیاں ہوں گی تو کیا حالات ہوں گے۔
جج نے کہا کہ اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے آمنے سامنے بات ہوتی تھی، اڈیالہ میں تو حالات ہی مختلف ہیں، اڈیالہ جیل میں بہت رش ہے، اٹک جیل میں سکون تھا۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر غیر ضروری سختی ہورہی، عدالت بہتر کلاس کا فیصلہ کرتی ہے لیکن نافذ نہیں ہوتا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹی وی اور بہتر بستر کیوں نہیں دیتے؟ اٹک جیل میں سکون تھا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میں نے اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو لائبریری، ورزش، اخبار کی سہولیات دی تھیں، جیل منتقلی کا خوامخواہ تماشا بنایاگیا، اڈیالہ جیل میں کوئی کہانی ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جیل منتقلی کی درخواست دائر کرنے سے قبل شیرافضل مروت کو قانونی ٹیم سے مشاورت کرنی چاہیے تھی، شیرافضل مروت نے حتمی مشاورت کیے بغیر ہائی کورٹ اور آپ کی عدالت میں درخواست دائر کردی، اٹک جیل میں وکلا کی ملاقات بہت آسانی سے ہوتی تھی، اڈیالہ جیل میں تو بہت مسائل ہیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میں کل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے دفتر بیٹھا تھا، میرے سامنےسے 70 ملزمان گزرے، میری تو پیٹرول کی پوری ٹینکی لگتی تھی لیکن اٹک جیل میں سماعت آسانی سے ہوتی تھی۔
انہوں نے پی ٹی آئی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب نوٹ کرلو سب! شکر ہے آپ اڈیالہ جیل منتقلی کے حوالے سے غلطی مانے تو صحیح۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ آپ نے مائنڈ نہیں کرنا لیکن سائفر کیس کی سماعت 10 اکتوبر کو تھی، نقول کے لیے کیوں جلد سماعت رکھی؟
جج نے کہا کہ اگر سائفر کیس کا ٹرائل چلانا ہے تو بتائیں، نہیں چلانا تب بھی بتا دیں، ٹرائل کے لیے وافر وقت دے رہا ہوں، آپ کی قانونی ٹیم کو سمجھ ہی نہیں آرہی، میں سائفر کیس کا ٹرائل بہت موثر انداز میں چلانا چاہ رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ابو الحسنات ذوالقرنین نہیں تو کوئی اور سائفر کیس کا ٹرائل کر لے گا، سائفر کیس میں چالان کے نقول کبھی نہ کبھی تو فراہم کرنے ہیں ناں، جوڈیشل ریمانڈ کی اہمیت کو سمجھیں، چالان آجائے تو جوڈیشل ریمانڈ غیرموثر ہوجاتا ہے، جوڈیشل ریمانڈ کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کی 14 روز کے بعد خیر و عافیت معلوم کرنا ہے۔
وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا جج ہمایوں دلاور کو توشہ خانہ کیس میں کیا جلدی ہے، توشہ خانہ، سائفر کیس میں ملزم کو ٹرائل کی جلدی ہونی چاہیے، یہاں مدعی جلدی کر رہا ہے، دیگر کیسز معمول کے مطابق چلائے جارہے ہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کیسز کا جلدی ٹرائل کیا جارہا ہے۔
جج ابوالحسنات نے مزید کہا کہ سائفر کیس عام نوعیت کا نہیں، ہائی پروفائل حساس کیس ہے، اہمیت کو سمجھیں لیکن پی ٹی آئی وکیل نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کوئی حساس کیس نہیں ہے، بلکہ اس کیس کو حساس بنایا جا رہا ہے۔
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ سائفر کیس کے چالان کے نقول فراہم کرنے تھے، پی ٹی آئی قانونی ٹیم نے عدالت کی نہیں سنی، اگر کوئی اور بہتر جج لگتا ہے تو لے آئیں، میں سیدھا اور صاف بات کرنے والا جج ہوں، مجھے کوئی شوق نہیں، میں اپنا پیشہ ورانہ کام کر رہا ہوں۔
اس پر شیراز رانجھا نے کہا کہ ہماری کون مانتا ہے؟ جج ہمایوں دلاور کے خلاف درخواستیں دیں، کچھ نہیں ہوا، ہم چاہتے ہیں سائفر کیس کا ٹرائل ہی نہ ہو۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ میں پریس کانفرنس نہیں کرسکتا، جرم کیا ہے تو سزا ہوگی، نہیں کیا تو بریت ملے گی، سائفر کیس کی سماعت کے لیے لمبی تاریخ دے دیتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی جتنے دن قید ہیں اس کا کیا ہو گا؟۔
انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جج ہمایوں دلاور سمجھتے ہیں، جج ہمایوں دلاور بھی انسان تھے، ہمایوں دلاور نے اپنے انداز سے توشہ خانہ کیس چلایا، ابوالحسنات سائفر کیس اپنے طریقے سے چلائے گا۔
جج نے مزید کہا کہ اگر سائفرکیس کا ٹرائل ہو گا تو چیئرمین پی ٹی آئی باہر آئیں گے نا، مجھے بتائیں اب تک سائفر کیس کی سماعت کیا موثر انداز میں نہیں ہوئی؟۔
اس پر وکیل شیراز رانجھا نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ پی ٹی آئی وکلا کی باتوں کو سمھتےہیں۔
خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ اللہ نے اگر سائفر کیس کا فیصلہ ابوالحسنات کے ہاتھوں سے کروانا ہے، تو ابوالحسنات ہی کرے گا۔