اسلام آباد: (سچ خبریں) جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں، 2 صوبے بدامنی کی زد میں ہیں، 8 فروری کے الیکشن کے لیے انتخابی مہم کے دوران کوئی شہید ہوا تو ذمہ دار چیف الیکشن کمشنر ہوں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاٹا میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی، فاٹا کے عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے، فاٹا میں انضمام کا تجربہ ناکام نظر آرہا ہے، فاٹا کا عام آدمی پریشان ہے، ہم نے ہمیشہ کہا الیکشن میں یکساں اور پرامن ماحول بھی ہونا چاہیے، دو صوبوں میں اس وقت بدامنی کا ماحول ہے، اس وقت ملک میں امن وامان کی صورت حال بہتر نہیں، پاکستان کا استحکام افغانستان کی ضرورت ہے۔
سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا ہے کہ وام سے ہمارا رابطہ اور تعلق نظریات کی بنیاد پر ہے، ہماری جماعت انتخابات میں حصہ لے گی، ہمیں ضلعی انتظامیہ نوٹس دیتی ہے کہ سیکورٹی خطرناک ہیں آپ الیکشن مہم نہیں کرسکتے لیکن ہم جب اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، عدالتی مارشل لاء کا ماحول بنا دیا گیا ہے، اگر چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کے حکم پر شیڈول جاری کرنا ہے تو الیکشن کمیشن کب آزاد ہوا، اگر الیکشن میں ہمارا ایک بھی کارکن شہید ہوا تو چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ذمہ دار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو عدالت کے تین جج بلاتے ہیں اور پٹیشن لانے کا کہتے ہیں، عشاء کے وقت عدالت کھلتی ہے اور الیکشن کمیشن کو حکم دیتی ہے الیکشن شیڈول جاری کرو، الیکشن کمیشن شیڈول کردیا ہے تو الیکشن کمیشن کب اپنے فیصلے خود کرے گا؟ ہم نے ساری صورتحال میں متوجہ کیا کہ جب امن و امان کی صورتحال اور موسم کی صورتحال ایسی ہوگی تو کیا ہوگا، جب ٹرن آؤٹ ہی موسم کے سبب نہ ہونے کے برابر ہوگا تو پھر کیا ہوگا اس لیے کہا صورتحال کو دیکھا جائے، ایسی صورتحال میں ہم الیکشن میں جائیں تو کم از کم ماحول تو ساز گار بنایا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد حکمرانوں کی ترجیحات اسلامی پاکستان کی نہیں رہی، بدقسمتی سے آج بھی وطن عزیز کو ایک اسلامی ملک کی شناخت نہ دے سکے، حالاں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، ماؤں بہنوں سمیت لاکھوں مسلمانوں نے اس ملک کیلئے جانوں کی قربانی دی، پڑوسی ممالک کے ساتھ مسائل مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت مصلحتوں کا شکار ہو کر اپنا وقت گزار دیتی ہے۔