لاہور(سچ خبریں) اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) حکومت کی جانب سے کیے جانے والے نیم مالی منصوبوں یا مالیاتی اقدامات کو بند کردے گا تاہم سبسڈائز کریڈٹ (معیشت کے مختلف شعبوں) تک رسائی کی حمایت کرنے کے لیے استعمال ہونے والی سہولیات کو ری فنانسنگ 1956 کے موجودہ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد بھی جاری رکھے گا
سینٹرل بینکر نے 1956 کے اسٹیٹ بینک قوانین میں مجوزہ ترامیم، جو اپنے بنیادی مقاصد کی تشکیل نو، بینک اور اس کے گورنر کو بے مثال اختیارات دینے، اور مانیٹری پالیسی اور تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے کے حوالے سے ہیں، پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ‘مرکزی بینک کے پاس مقداری ٹولز ہونے چاہئیں، اگر ہمارے پاس یہ ٹولز نہ ہوں تو ہم عارضی معاشی ری فنانس سہولت (ٹی ای آر ایف) کے تحت سود کی شرح میں کمی کے ذریعے کووڈ 19 کے بحران کے دوران معیشت اور کاروبار کی حمایت نہیں کرسکتے تھے۔
جب سے کابینہ کی جانب سے 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرض کی بحالی کے لیے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کا مسودہ منظور ہوا ہے تب سے ہی مارکیٹ ان خبروں سے نالاں ہے کہ اسٹیٹ بینک چھوٹے، ہاؤسنگ سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے سبسڈی والے قرضوں اور درمیانے درجے کی صنعتوں، زراعت، برآمد کنندگان، وغیرہ کو بند کرسکتا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بینکر نے کہا کہ ‘ترمیم شدہ اسٹیٹ بینک قانون ہمیں مرکزی بینک پاس ری فنانس سہولیات رکھنے اور قیمت اور مالی استحکام کے اس طے شدہ مینڈیٹ کے حصول میں ان کا استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس پر بھاری یا مستقل انحصار کریں گے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جب ہمیں (اس کی) ضرورت ہو تو مرکزی بینک کو لیکویڈیٹی (معیشت میں) دینے کے لیے ہمارے ٹول کٹ کافی مضبوط ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تاہم جب معیشت کا پارا بہت اوپر ہو، پیداوار کا فرق مثبت ہو، سرمایہ کاری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہو اور طلب کی وجہ سے افراط زر بہت زیادہ ہو تو ہم ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اس طرح کی صورتحال میں زیادہ سے زیادہ رعایت قیمت اور مالیات کے استحکام کو نقصان پہنچائے گی’۔
سرکاری قرضے
قانون میں مجوزہ تبدیلیوں سے مرکزی بینک کو اپنے خسارے کی مالی اعانت کے لیے براہ راست حکومت کو قرض دینے سے روک دیا گیا ہے۔
بینکر نے وضاحت کی کہ ‘یہ پالیسی فیصلہ ہے جو مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا جاتا ہے، پھر بھی یہ اسٹیٹ بینک کو سیکنڈری مارکیٹ سے قرض خرید کر حکومت کو قرض دینے سے نہیں روکتا، اس طرح کی مداخلت حکومت کو قیمتیں معلوم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
یہاں تک کہ ابھی بھی اوپن مارکیٹ آپریشنز مارکیٹ میں لیکوئڈیٹی فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ کمرشنل بینک حکومتی قرضے خرید سکیں۔
اگرچہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے ایک حصے کے طور پر اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لے رہی ہے تاہم اس ترمیم شدہ قانون کی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد حکومت کو اسٹیٹ بینک پر اپنے بجٹ خسارے کی مالی معاونت کے لیے نئے کرنسی نوٹ پرنٹ کرنے کے لیے زبردستی کرنے پر قانونی طور پر پابندی کا سامنا ہوگا۔
خودمختاری
مرکزی بینک کی موجودہ انتظامیہ کے نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک ایکٹ میں مجوزہ تبدیلیاں مقاصد کو واضح کریں گی، ان کے حصول کے لیے عملی اور خودمختاری کو فروغ دیں گی اور اپنے مقاصد کے حصول میں اس کے احتساب کو مستحکم کریں گی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں کہا گیا کہ ‘اگر مقاصد واضح نہیں ہیں تو احتساب واضح نہیں ہوگا، مقاصد کو حاصل کرنے اور کارروائیوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری وسائل جن میں بین الاقوامی وسائل اور مالی اور انتظامی خود مختاری شامل ہیں کو کسی بھی بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر اسٹیٹ بینک کے لیے دستیاب بنانا ہوگا’۔
بینکر نے وضاحت کی کہ ‘موجودہ اسٹیٹ بینک قانون میں مجوزہ تبدیلیاں اسے قیمت اور مالی استحکام کو نشانہ بنانے اور کرنسی کے انتظام کو آزادانہ مالیاتی اور ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کے تحت کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ڈال دے گی’۔