اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، رہنما پیپلز پارٹی و سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر کے خلاف توشہ خانہ گاڑیوں کے ریفرنس کو واپس بھیجنے کے کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ فیصلہ 14 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔
میڈیا کے مطابق توشہ خانہ گاڑیوں کے ریفرنس پر سماعت احتساب عدالت نمبر 3 کی جج عابدہ ساجد نے کی، نواز شریف کے وکلا قاضی مصباح الحسن اور رانا عرفان عدالت کے سامنے پیش ہوئے، صدر مملکت آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ اس کیس میں مجموعی طور پر 5 ملزمان ہیں، انہوں نے نیب ترمیمی قانون عدالت کے سامنے پڑھتے ہوئے بتایا کہ نیب ترامیم کے بعد یہ کیس اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ کیس 8.05 کروڑ کا ہے جو 50 کروڑ سے کم بنتے ہیں، استدعا کی کہ اس کیس کو واپس چیئرمین نیب کو بھیج دیا جائے۔
اس پر جج عابدہ سجاد نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین اس نقطہ پر متفق ہیں کہ یہ کیس اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں؟ جب یہ کیس آیا تھا اس وقت آصف علی زرداری کو صدارتی استثنیٰ نہیں ملا تھا۔
وکیل صدر مملکت نے کہا کہ آصف علی زرداری پہلے بھی صدر بنے تو استثنیٰ لیا، آصف علی زرداری جب صدارت سے اترے تو دوبارہ نیب میں پیش ہوئے، یہ عدالت ریفرنس واپس بھیج دے، آگے نیب کا اختیار کہ کیس کس کو بھیجتی ہے، اب کیس جس ایجنسی کے پاس جائے گا وہاں سوال ہوگا کہ کیا آصف علی زرداری پر کیس بنتا ہے یا نہیں؟
اس موقع پر نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح الحسن نے بتایا کہ اس سے قبل جب عدالت نے فیصلہ کیا تو کیس واپس نیب گیا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے کی روشنی میں یہ کیس واپس اسی عدالت میں آیا، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے چیک دیا وہ باؤنس ہوگیا۔
وکیل فاروق ایچ نائک کے مطابق اس سے قبل ایسا ہی ایک کیس واپس نیب کو بھیجا گیا تھا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب ایک کیس عدالت کا دائرہ اختیار ہی نہیں تو میرٹ ڈسکس نہیں ہوں گے، اس عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ ریفرنس واپس بھیجا جائے گا یا نہیں، صدر آصف علی زرداری کو استثنیٰ حاصل ہے، ان کے خلاف کیس چل ہی نہیں سکتا، آصف علی زرداری کا کیس ایف آئی اے کو بھیج دیا جائے گا، نواز شریف کا کیس الگ ہوگا اور آصف زرداری کا کیس الگ چلے گا،،
بود ازاں آصف زرداری کے وکیل نے بتایا کہ اس سے قبل نیب نے پورا ریفرنس واپس بھجوا دیا تھا، فاروق ایچ نائیک کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس سے قبل جب کیس واپس بھیجا گیا تھا اس وقت آصف علی زرداری صدر نہیں تھے، وکیل کا کہنا تھا کہ اگر یہ عدالت کیس واپس کرنے کی بجائے کسی اور عدالت بھیجے گی تو یہ میرٹ کو ڈسکس کرنے کے مترادف ہے، اس عدالت کے پاس کیس چلانے کا اسٹے آرڈر دینے کا اختیار ہی نہیں۔
اس پر نیب پراسیکیٹور نے بتایا کہ عدالت صدر زرداری کو پہلے ہی استثنیٰ دے چکی ہے، یہ کیس یہیں رکا رہے گا جب تک آصف علی زرداری صدر ہیں، وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اگر عدالت یہ ریفرنس اپنے پاس رکھتی ہے تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، نیب پراسیکیوٹر کے مطابق عدالت نواز شریف کی حد تک ریفرنس واپس بھیج دے، آصف علی زرداری کی حد تک اسٹے رکھے۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا، کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ 14 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔
اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر اور اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔
نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔
نیب نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔