سچ خبریں: غزہ کی جنگ کے طویل ہونے کے باعث صیہونی ریاست کی اقتصادی صورتحال سنگین ہو چکی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس بحران کے اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔
فلسطین الیوم کی رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں مقبوضہ علاقوں میں افراط زر کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جو گزشتہ ایک سال کے دوران سب سے بلند سطح پر پہنچ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی معیشت پر الاقصی طوفان کے تباہ کن نتائج
ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس افراط زر کی اہم وجہ غزہ کی پٹی کے خلاف جاری جنگ کے بے پناہ اخراجات اور متعدد محاذوں پر بڑھتی ہوئی جھڑپیں ہیں۔
عبری زبان کے میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور افراط زر کی صورتحال کو نظر انداز کر رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس اقتصادی صورتحال کی وجہ غزہ جنگ نہیں تاکہ وہ جنگ کو روکنے پر مجبور نہ ہوں۔
قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں فعال 50 فیصد سے زائد ٹیکنالوجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی سرگرمیاں ان علاقوں سے باہر منتقل کر رہی ہیں۔
صیہونی ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ ان کمپنیوں کو صیہونی ریاست کی حکومت کی اقتصادی حالات کو بہتر کرنے کی صلاحیت پر اب اعتماد نہیں رہا۔
اگست میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ 230 کمپنیوں اور 49 سرمایہ کاروں میں سے نصف سے زائد نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری ختم ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی ریاست کے اقتصادی حالات؛ صیہونی وزیر خزانہ کی زبانی
یہ بھی اہم ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران صیہونی ریاست کی معیشت بڑی حد تک ٹیکنالوجی کے شعبے پر انحصار کرتی رہی ہے، اور اس شعبے میں عدم اعتماد مستقبل کی معیشتی صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔