سچ خبریں: نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کے تمام جنگی مقاصد، بشمول حماس کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی آزادی کے لیے فوجی دباؤ کی پالیسی اپنائی تھی، لیکن اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ نتائج بالکل برعکس ہو چکے ہیں اور اسرائیل کئی محاذوں کی مزاحمتی تحریک کی آگ میں گھر چکا ہے۔
غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیلی قابض حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک منظم پالیسی اپنائی تھی، جس میں سب سے اہم ہدف غزہ میں مزاحمت کو ختم کرنا اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے صہیونی قیدیوں کو واپس لانا تھا۔
صہیونی فوجی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی جنگی حکمت عملیاں
اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل نے فلسطینی عوام اور مزاحمتی تنظیموں، خاص طور پر حماس، پر شدید فوجی دباؤ ڈالا۔
یہ بھی پڑھیں: مزاحمتی تحریک کے ہتھیار کیا کر رہے ہیں اور صیہونیوں کی حالت زار؛ سید حسن نصراللہ کی زبانی
تاہم، اس فوجی دباؤ کے مقابلے میں، غزہ کی فلسطینی مزاحمت نے اپنی جنگی حکمت عملیوں کو حالات کے مطابق تبدیل کیا۔
حالیہ مرحلے میں، مزاحمت نے اپنی جنگی حکمت عملیوں کو گروہی جنگوں سے ہٹ کر، چھوٹے پیمانے کی انفرادی یا کم تعداد کی گروہی کارروائیوں تک منتقل کیا، جنہیں وسیع تر علاقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔
غزہ کے مختلف محاذوں پر صہیونی فوجیوں کا مسلسل مزاحمت کی کمین گاہوں میں پھنسنا، اس حکمت عملی کا ایک نمایاں نتیجہ ہے۔
اس کے علاوہ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ سے باہر، خاص طور پر مغربی کنارے اور تل ابیب میں، فلسطینیوں کی جانب سے انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیکن یہ کہ مزاحمت نے اپنی کارروائیوں کو گروہی سطح سے انفرادی سطح پر منتقل کیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مزاحمت کمزور ہو گئی ہے یا ٹوٹ گئی ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہ اب بھی ایک متحد کمان کے تحت اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور انہیں فوجی، میڈیا اور سیکیورٹی سمیت تمام قسم کی خدمات کی حمایت حاصل ہے۔
سیاسی اور فوجی فیصلوں میں مزاحمت کے درمیان اعلیٰ سطح کی ہم آہنگی برقرار ہے۔
اسرائیلی فوجی دباؤ کی ناکامی
اس بات پر غور کریں کہ کیا اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی نے وہ نتائج دیے جن کی توقع تھی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی نہ تو غزہ میں مزاحمت کو ختم کر سکے اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو آزاد کرا سکے۔
ہر بار جب اسرائیلی فوج نے غزہ سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فوجی کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں ان قیدیوں کی جان لینے کا باعث بنیں۔
پچھلے ہفتے اسرائیلی قیدیوں کی 6 لاشوں کی دریافت، جس سے صہیونی آبادکاروں میں نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کے خلاف شدید غصے کی لہر دوڑ گئی، اسرائیل کی اس پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
سیاسی محاذ پر بھی اسرائیل کا فوجی دباؤ 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی غزہ میں سیاسی حقیقت اور حکمرانی کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔
صہیونی سازشوں اور امریکہ کی مکمل حمایت کے باوجود، وہ حماس کی حکومت کا کوئی متبادل غزہ میں قائم نہیں کر سکے۔ غزہ پر پیچیدہ اور مشکل حالات کے باوجود، حماس اب بھی اس باریکے پر حکمرانی کر رہی ہے۔
دوسری طرف، اسرائیلی حکومت غزہ کی غیر فوجی اور اہم انفراسٹرکچر جیسے صحت کے نظام اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کو نشانہ بنا کر، جو اس علاقے میں زندگی کے آثار کو تباہ کر چکے ہیں، غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بھڑکانے میں ناکام رہی ہے۔
غزہ کے عوام تقریباً ایک سال سے جاری اس تباہ کن جنگ کے باوجود، جو اسرائیلی قابض حکومت نے ان پر مسلط کی اور جس نے اس علاقے کو جہنم بنا دیا ہے، اب بھی اپنی سرزمین کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔
وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہے، اور مزاحمت ہمیشہ فلسطینی عوام کے دفاع میں پیش پیش رہی ہے اور اس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسرائیلی فوجی دباؤ کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اسرائیلی حکام نے فلسطینی مسئلے اور اسرائیل کی جانب سے جاری قبضے کی حقیقت کو نظر انداز کیا اور جھٹلایا۔
لیکن سچائی یہ ہے کہ فلسطینی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ قابض ہیں، اور مزاحمت نے ماضی کی دہائیوں سے لے کر آج تک فلسطینیوں کی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔
اس لیے فلسطینی عوام کو یقین ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کے حصول، جیسے ایک آزاد ملک اور پُرامن زندگی کے لیے، ان کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
نیتن یاہو کا فیلادلفیا کوریڈور پر فوجی دباؤ کا جھوٹ
گزشتہ چند ہفتوں میں، جب جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی باتیں زور پکڑنے لگیں، نیتن یاہو نے مصر اور غزہ کے درمیان فیلادلفیا کوریڈور میں اسرائیلی فوج کے قیام کو مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی سے جوڑ دیا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں اسرائیلی فوج کی موجودگی، حماس کی آکسیجن لائن کو کاٹ کر اس کے ہتھیاروں تک رسائی کو روکے گی، اور یوں غزہ میں مزاحمت پر دباؤ کا نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
لیکن نیتن یاہو جس حقیقت سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت، خاص طور پر گزشتہ دو دہائیوں میں، اندرونی طور پر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔
مزاحمتی محاذ کی حمایت سے، حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے اپنے دفاعی اور حملہ آور ہتھیاروں میں خود انحصاری حاصل کی ہے، جن میں راکٹ سمیت مختلف قسم کے ہتھیار شامل ہیں۔
فلسطینی انجینئروں نے 2008 کے بعد میزائل سازی کے شعبے میں اہم پیشرفت کی اور مختلف رینج کے میزائل، اینٹی ٹینک اور اینٹی فصیل ہتھیار بنائے، جن میں “یاسین 105” نامی اینٹی ٹینک میزائل شامل ہے، جو مکمل طور پر فلسطینی ساختہ اور غزہ میں تیار کردہ ہے۔
اس کے علاوہ، غزہ میں تیار کیے گئے دوربین بندوقیں بھی مزاحمتی جنگجو استعمال کرتے ہیں، جو اسرائیلی زمینی فوج سے مقابلے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔
اس لیے نیتن یاہو کا فیلادلفیا کوریڈور پر موجودگی کا اصرار، حماس پر فوجی دباؤ ڈالنے کا بہانہ محض ایک جھوٹ ہے۔
اسرائیلی فوجی کمانڈروں اور سیکیورٹی اداروں کو بخوبی معلوم ہے کہ اس علاقے میں صہیونی فوجیوں کی موجودگی، فلسطینی مزاحمت کی مسلح طاقت کو اس جنگ کے دوران یا بعد میں ختم نہیں کر سکے گی۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کا منصوبہ غزہ پر قبضہ اور اس میں فوجی حکومت کا نفاذ ہے، اسی لیے نیتن یاہو فیلادلفیا کوریڈور اور نتساریم سے پیچھے ہٹنے کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ ان علاقوں میں موجودگی غزہ کے پورے جغرافیائی علاقے پر فوجی دباؤ ڈالنے کے عمل کو آسان بناتی ہے۔
اسرائیل محاصرے میں مزاحمتی محاذوں کی آگ میں گھرا ہوا ہے
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں موجود اسرائیلی افواج کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ اسرائیل کو مکمل طور پر غزہ پر قبضہ کرنے اور اس پر تسلط قائم کرنے کی اجازت دے۔
اسرائیلی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں اسرائیلی فوجی حکومت کے قیام کے لیے کم از کم 5 فوجی ڈویژن کی ضرورت ہے، جبکہ فی الحال غزہ میں دو سے زیادہ ڈویژن موجود نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج کو غزہ کی جنگ کے ساتھ ساتھ، مختلف محاذوں، خاص طور پر شمالی محاذ پر حزب اللہ کی دھمکیوں کا بھی سامنا ہے اور اس محاذ پر بھی بڑی تعداد میں اپنی فوجیں تعینات کرنی پڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب، مغربی کنارے نے بھی حالیہ مرحلے میں اسرائیل کے خلاف ایک اہم اور شدید محاذ کی صورت اختیار کر لی ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو اس علاقے میں بڑی فوجی کارروائیوں پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اس وقت مغربی کنارے میں تعینات اسرائیلی فوجیوں کی تعداد غزہ میں موجود فوجیوں سے زیادہ ہے۔
مزید برآں، اسرائیلی فوج نے اردن کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک نئی فوجی ڈویژن بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
ان حالات میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے دیگر محاذوں کو چھوڑنا ہوگا، جس کا مطلب ہوگا کہ دیگر محاذوں، خاص طور پر شمال اور مغربی کنارے سے اسرائیل کے خلاف حالات بھڑک اٹھیں گے۔
یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نتنیاهو کی جانب سے اپنائی گئی فوجی دباؤ کی پالیسی صرف اس کے سیاسی اور ذاتی مفادات کی خدمت کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: مزاحمتی محور کے حملے کے دوران تل ابیب کے لیے بدترین صورتحال کیا ہے؟
اس حقیقت سے نہ صرف اسرائیلی حکام بلکہ صہیونی آبادکار بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اسرائیل کے جنگی مقاصد محض فوجی دباؤ سے پورے نہیں ہوں گے۔