دمشق (سچ خبریں) شام میں ایک ایسے وقت میں انتخابات برگزار ہورہے ہیں کہ جب بشار اسد کی صدارت کے آخری دور میں دمشق کے خلاف امریکا کی جانب سے ہر طرح کی سازش کے بارے میں خبریں موصول ہورہی ہیں۔
شام میں ہونے والے انتخابات گذشتہ روز تین صدارتی امیدواروں یعنی عبدالله سلوم عبدالله، بشار حافظ اسد اور محمود احمد المرعی کے ناموں کے اعلان کے ساتھ ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے ہیں کہ جب اس ملک میں مغربی اور کچھ عرب حکومتوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں اور تکفیری گروہوں کے ساتھ گذشتہ ایک دہائی کے دوران ملک کو خونی جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شام میں ہونے والے موجودہ انتخابات گذشتہ انتخابات سے کچھ مختلف ہیں اور یہ بات کافی اہمیت رکھتی ہے، 2012 میں شام کے آئین کی تشکیل نو کے بعد سے موجودہ صدر بشار الاسد صدر کی دوسری اور آخری میعاد ہے کہ جب وہ شام کے صدر بن سکتے ہیں، اور اسی وجہ سے یہ انتخابات ان لوگوں کے لیئے کافی اہمیت رکھتے ہیں کہ جو بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں تھے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کچھ سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ منعقد ہورہے ہیں جن میں دمشق میں کچھ عرب سفارت خانوں کی بحالی اور اس ملک کے ساتھ سفارتی اور عسکری تعلقات کی بحالی اور اس ملک کے مزید علاقوں میں شام کے فوجی کنٹرول میں اضافہ شامل ہیں۔
اس طرح آج 10 سالوں میں پہلی بار، ان علاقوں میں بھی انتخابات ہوں گے جو اس سے قبل شام کی حکومت کے کنٹرول سے باہر تھے، جیسا کہ لاذقیہ کے اطراف کے شمالی علاقے جن میں اس بار انتخابات ہورہے ہیں۔
ان انتخابات اور گذشتہ انتخابات میں ایک اور فرق کورونا وائرس کے وبا کے تناظر میں انتخابات کا انعقاد ہے، جس نے ملک کے سیاسی عہدیداروں کے مطابق، عوام میں وسیع پیمانے پر شرکت کی وجہ سے اس وائرس سے بچاؤ کے لئے ضروری اقدامات فراہم کیے ہیں۔
شام میں ہونے والے انتخابات ہمیشہ کی طرح امیدواروں کی نوعیت سے قطع نظر ایک قومی تقریب کے طور پر منعقد ہورہے ہیں جو ملک کی سیاسی اور ثقافتی شخصیات کے لیئے کافی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ اگرچہ بشار الاسد کے حریف ان سے کم انتخابی مہم چلا رہے ہیں، اور بشار اسد کی سیاسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، انہیں انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں امیدوار بھی بڑے زور و شور سے انتخابی مہم چلانے کے درپے ہیں۔
یاد رہے کہ جمعرات، 20 مئی کو شام کے صدارتی انتخابات کا پہلا دور بیرون ملک مقیم شامی شہریوں کے ووٹوں کے ساتھ شامی سفارت خانوں اور قونصل خانے میں شروع ہوا۔