ریاض (سچ خبریں) سعودی عرب میں ہونے والے ایک سروے کے نتائج سے اہم انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب میں بطور صحافی زندہ رہنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے، اور اگر کسی صحافی کو سعودی عرب میں زندہ رہنا ہے تو اسے بالکل خاموش رہنا ہوگا۔
سروے کے تیسرے حصے میں ، "زندہ رہنے کے لیے خاموش رہو” کے عنوان سے، رپورٹ کے مصنف نے کہا کہ بن سلمان خاشقجی کے قتل کے حکم کا مرکزی ملزم تھا۔
تحقیقاتی صحافی جس نے رپورٹ تیار کی ہے وہ کہتا ہے کہ ایک صحافی کی حیثیت سے، میں نے سعودی رائے عامہ کو اندر سے سروے کیا، وہ اپنا امیج بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اب اس سلسلے میں انہیں کوئی زیادہ مدد اور فائدہ حاصل نہیں ہوپارہا ہے۔
صحافی نے مزید کہا کہ یہ سعودی عرب میں ایک حساس مسئلہ ہے، اور جب وہ گھوم رہا تھا تو اس نے ایک لائبریری میں جا کر ایک اخبار لیا اور اخبار بیچنے والے سے پوچھا کہ کیا یہ آج کا اخبار ہے؟ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا صحافی خاشقجی کے قتل کی کوئی خبر ہے؟ اخبار بیچنے والے نے جواب دیا کہ وہ پڑھ نہیں سکتا، اس جواب کے بعد رپورٹ کے مصنف نے تعجب کیا کہ کتابوں کی دکان کا مالک پڑھنا نہیں جانتا !! کتنی عجیب بات ہے!! یہ صرف ڈر اور خوف ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
پوری دنیا جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں بات کر رہی ہے، لیکن سعودی عرب کے دو بڑے اخبارات نے اپنے پہلے صفحے پر بادشاہ کی تصویر لگائی اور سعودی عرب کی حمایت کرنے والے ٹرمپ کے ساتھ ان کی دوستانہ گفتگو کا جائزہ لیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں کچھ اہم مضامین کی توقع کر رہا تھا، مثال کے طور پر یہ کہ 15 سرکاری اہلکار سعودی عرب سے استنبول کیوں گئے؟ ان کے ساتھ ڈاکٹر کیوں تھا؟ یہ آپ کو بتاتا ہے کہ اس ملک میں پریس کو کتنی آزادی ہے، بالکل بھی نہیں۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر تنقید کرنے والا مضمون لکھنا پاگل پن ہے، کیونکہ آپ بھی غائب ہو سکتے ہیں، اس لیئے بحیثیت صحافی، سعودی عرب میں زندہ رہنا آسان نہیں ہے، اور اگر زندہ رہن اہے تو آپ کو خاموش رہنا ہوگا۔
رپورٹ لکھنے والے نے تحقیقات میں شامل ایک شخص سے سوال پوچھا کہ کیا ہم بن سلمان پر تنقید کر سکتے ہیں یا ان کی پالیسیوں پر تنقید کر سکتے ہیں؟
اس نے جواب دیا کہ یہ جاننے کا ایک طریقہ ہے، یہاں تک کہ خاشقجی کے سابق ایڈیٹر نے بھی حکمران خاندان پر پابندیاں لگا دی ہیں۔