سچ خبریں: 24 سالہ فلسطینی لڑکی مرا باکر نے جھوٹے الزامات کے تحت اپنی زندگی کے آٹھ سال اسرائیلی جیل میں گزارے اور صہیونیوں کی گولی لگنے کے نتیجے میں اپنا بایاں ہاتھ کھو بیٹھی۔
مرا باکر ایک فلسطینی لڑکی ہے اور ان افراد میں سے ایک ہے جنہیں قیدیوں کے تبادلے کی کاروائی کے دوران گذشتہ جمعہ کو صیہونی جیلوں سے رہا کیا گیا تھا،گرفتاری کے وقت وہ ایک 16 سالہ نوعمر لڑکی تھی جو 12 اکتوبر 2015 کو جب وہ اسکول سے واپس آرہی تھی تو اسرائیلی پولیس نے اس پر 14 گولیاں چلائیں جس سے اس کے بائیں ہاتھ کی کندھے تک ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور اس کے ہاتھ کے اعصاب ختم گئے۔
یہ بھی پڑھیں: 5ہزار دن برزخ میں؛صیہونی جیل کی کہانی فلسطینی قیدی کی زبانی
اس وقت مرا پر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ اس نے صیہونی فوج کے خلاف آپریشن کرنے کی کوشش کی ، اس کے پاس چاقو تھا، جبکہ وہ اس وقت صرف 16 سال کی تھیں، اسے ساڑھے آٹھ سال کی قید کی سزا سنائی گئی
الجزیرہ نیوز چینلنے اس آزاد فلسطینی لڑکی کا انٹرویو لیا ہے جس میں اس نے کہا کہ وہ قانون کے شعبے میں ایک غیر ملکی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے تاکہ فلسطینی خواتین قیدیوں کے معاملے کا بین الاقوامی حلقوں میں دفاع کر سکے اور اسے بین الاقوامی عدالتوں میں اٹھا سکے۔
اپنی گرفتاری کے حالات اور وقت کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ اس وقت وہ ہائی اسکول میں ادب کی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی تھی اور اپنے اردگرد کے واقعات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی لیکن اسرائیلی جیلوں میں گزارے گئے 8 سال نے ان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیا،وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور زیادہ صبر کرنے والا ہو گئی ہے اور اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرتی ہے، وہ کہتی ہے: جیل میں میں نے ہمیشہ اپنے آپ سے یہ جملہ دہرایا کہ جس کے ساتھ خدا ہو اس کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ اور اس طرح میں نے اپنے لیے مشکلیں آسان کر دیں اور مجھے یقین تھا کہ اللہ مجھے مشکلات میں اکیلا نہیں چھوڑے گا، جیل میں میں نے معاشرے کے مختلف طبقوں اور مختلف شخصیات کے ساتھ بات چیت کرنے کا کافی تجربہ حاصل کیا ہے۔
باکر نے اپنی حراست کے پہلے دنوں اور مہینوں کو بہت مشکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے لگنے والی چوٹ کی وجہ سے میں 22 دن تک ہسپتال میں داخل رہی ، میرے دو آپریشن کیے گئے لیکن میرا علاج مکمل نہ ہوسکا جبکہ میرے ہاتھ میں اعصابی نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک اور آپریش کی ضرورت تھی لیکن مجھے ہسپتال سے ڈسچارج کر کے عسقلان جیل منتقل کر دیا گیا،میں وہاں 18 دن رہی پھر الرملہ جیل بھیج دیا گیا،میں وہاں دو ہفتے رہی پھر وہ مجھے شیرون جیل لے گئے،اس دوران کسی نے میری چوٹوں کا خیال نہیں رکھا اور انہوں نے میرے ہاتھ کی پٹی نہیں بدلی اور ٹانکے بھی نہیں کھولے،مجھے یہ سب کام دوسروں کی اور اپنے گھر والوں کی مدد کے بغیر خود کرنا پڑے۔
اپنے ہاتھ کی طبی دیکھ بھال کے حوالے سے اس فلسطینی لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ الرملہ جیل میں ڈاکٹر کے پاس فزیکل تھراپی کرنے گئی لیکن ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کا ہاتھ مفلوج ہو چکا ہے جو ٹھیک نہیں ہوگا، تاہم اس نے اپنی قید کی مدت کے دوران ہاتھ کی مشقیں سیکھیں اور انہیں باقاعدگی سے انجام دیا، وہ کہتی ہیں کہ جب مجھے شیرون جیل منتقل کیا گیا تو خواتین قیدیوں کی نمائندہ لینا الجربونی نے مجھے فزیوتھراپی کے لیے آمادہ کیا،ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے صحت یاب ہونے کے لیے ایک سال کی فزیکل تھراپی کی ضرورت ہوگی لیکن میں 6 ماہ کی اپنی مشقیں کرنے کے بعد، میں اپنے بازو کو حرکت دینے کے قابل ہوگئی۔
اس کے بعد مجھے دامون جیل میں قیدیوں کے نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا، خواتین قیدیوں نے مجھے اپنا نمائندہ منتخب کیا، میں اپنے اپنی تعریف نہیں کرنا چاہتی، لیکن میرا کردار مضبوط ہے اور میں ہر ایک کے ساتھ عزت اور ایمانداری سے پیش آتی ہوں، اس سے اسیروں کو مجھ پر اعتماد ہو گیا، اس لیے انہوں نے مجھے اپنا نمائندہ منتخب کیا اور میں نے اس دوران ان کے حقوق میں کوئی کوتاہی نہیں کی،قیدی خواتین کی نمائندہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں مرہ باکر کا کہنا ہے کہ خواتین قیدیوں بالخصوص سکیورٹی قیدیوں کی مدد کرنا نمائندہ کا اولین فرض ہے،ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قیدیوں میں سے کوئی میرے بغیر ڈاکٹر کے پاس گئی ہو، یہ بات میں نے سابق نمائندوں سے سیکھی کیونکہ اسرائیلی انٹیلی جنس فورسز خاتون قیدی کو اکیلے دیکھ کر معلومات اکٹھی کرنے کے لیے اس سے بے شمار سوالات کرنا شروع کر دیتے تھے۔
قیدیوں کو کمروں میں منظم کرنا اور منتقل کرنا نمائندے کی دوسری ذمہ داریوں میں سے ایک تھا،اس کے علاوہ نمائندے کو قیدیوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام خواتین قیدیوں کو معلوم ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے مطالبات حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ جیل انتظامیہ صرف احتجاج کی زبان سمجھتی ہے،ہمارے پاس احتجاج کرنے کے مختلف طریقے تھے جیسے کھانا نہ کھانا، قیدیوں کی گنتی کے لیے نہ آنا، یا جیل کے میدان میں جمع ہونا تاکہ وہ جان سکیں کہ ہم احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارے مطالبات پر توجہ دیں۔
دو مرتبہ قید تنہائی میں ڈالی گئی مرا باکر کہتی ہیں کہ دوسری بار ایسا 7 اکتوبر کے بعد ہوا اور میرا سیل بہت خراب جگہ تھا اور 4 کیمرے مجھے دیکھ رہے تھے جن میں سے ایک باتھ روم میں نصب تھا،بیت الخلا کا پانی ہمیشہ سیل کے فرش پر گرتا تھا اور میں 20 دن تک نماز نہیں پڑھ سکی،جیل کے محافظوں نے میری پرائیویسی کا احترام نہیں کیا اور مجھے بہت بدتمیز الفاظ سے خطاب کیا، جب میں نے قید تنہائی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ تمام قیدیوں کے نمائندوں کو جنگ کی وجہ سے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی جیلوں میں تشدد کی کہانی؛رہا ہونے والی فلسطینی خواتین قیدیوں کی زبانی
یہ فلسطینی لڑکی، جس نے اپنی ہائی اسکول کی تعلیم جیل میں مکمل کی ہے، قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی قیدیوں کا دفاع کر سکے، کیونکہ انہیں متعدد خلاف ورزیوں کا سامنا ہے، وہ کہتی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ میں فلسطین سے باہر اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر سکوں گی۔
وہ اپنی آزادی پر بہت خوش ہے لیکن اسے اس بات پر افسوس ہے کہ اس آزادی کے لیے کئی فلسطینیوں کا خون بہایا گیا اور اس کا کہنا ہے کہ وہ دلی طور پر اس واقعے پر خوش نہیں ۔