سید حسن نصراللہ کو شہید کر کے اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو للکارا ہے

سید حسن نصراللہ کو شہید کر کے اسرائیل نے مزاحمتی تحریک کو للکارا ہے

?️

سچ خبریں: ماہرین نے سید حسن نصراللہ کی شہادت اور صیہونی حکومت کے خلاف جنگ کے توازن پر اثرات کے حوالے سے حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں اور جنگی حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے۔

الجزیرہ نیوز نے علاقائی سلامتی اور اسٹریٹیجک ماہرین کے ساتھ بات چیت میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی شہادت صیہونی حکومت کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمتی کارروائیوں پر اثر ڈال سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: مزاحمتی تحریک کے سربراہان کو شہید کر کے  بھی صیہونی کیوں ہار جاتے ہیں؟

لبنان اور یونیفل فورسز کے سابقہ کوآرڈینیٹر اور علاقائی اسٹریٹیجک ماہر منیر شحادہ نے کہا کہ حالیہ واقعات، جیسے پیجر ڈیوائسز کے دھماکے اور یگان رضوان کے رہنماؤں کے قتل کے ساتھ ساتھ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے واقعات یقیناً مزاحمت کی کارکردگی پر اثر ڈال سکتے ہیں لیکن حزب اللہ کی فورسز میں مثالی اتحاد موجود ہے۔

یہاں تک کہ ان حملوں کے چند گھنٹوں بعد ہی حزب اللہ نے دشمن صیہونی حکومت پر دوبارہ میزائل داغنے کی کارروائیاں شروع کر دیں، جو اس تنظیم کی فوری طور پر اپنا توازن بحال کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔

شحادہ نے مزید کہا کہ مزاحمتی تحریک نہ صرف یہ کہ موجودہ پیچیدہ حالات کے باوجود مقبوضہ علاقوں پر حملوں سے دستبردار نہیں ہوئی بلکہ سید نصراللہ کی شہادت کے اعلان کے بعد تل ابیب سمیت مقبوضہ علاقوں پر داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو حزب اللہ کی مزاحمتی قوت اور صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی مسلسل طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔

سکیورٹی تجزیہ کار منیر شحادہ نے مقبوضہ فلسطین کے جنوبی محاذ کی تازہ ترین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کو اس محاذ پر بھی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے اور امکان ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے تک مزاحمتی فورسز کی کارروائیاں اس محور پر جاری رہیں گی۔

صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو شمالی علاقوں کے باشندوں کو ان کے گھروں میں واپس بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف حزب اللہ نے تل ابیب تک 120 کلومیٹر کی دوری پر میزائل داغنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ تمام شمالی علاقے اور یہودی بستیاں خالی ہو رہی ہیں، اور اسرائیل کو 120 سے 130 ہزار آوارہ صیہونیوں کو واپس لانے کے بجائے اب ایک ملین سے زائد آوارہ افراد کی واپسی کا سوچنا ہوگا۔

شحادہ نے مزید کہا کہ غزہ اور جنوبی لبنان کے محاذوں میں کوئی فرق نہیں رہا، صیہونی حکومت کی جانب سے سرخ لکیر عبور کرنے کے بعد مزاحمت کے سامنے مختلف آپشنز ہیں جو اسے ان محاذوں پر زیادہ آزادی فراہم کرتے ہیں۔

حزب اللہ نے درمیانی رینج کے میزائلوں اور جدید ہتھیاروں سے اپنے حملے بڑھا دیے ہیں، اگر اسرائیل زمینی فوجی کارروائی شروع کرنا چاہے، تو یہ مزاحمت کے لیے ایک تحفہ ہوگا کیونکہ جب جنگ نزدیک فاصلے پر شروع ہوگی تو دشمن کی فضائی مدد رک جائے گی۔

شحادہ نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت کی زمینی جنگ میں بڑی صلاحیت ہے اور لبنان کے جنوبی علاقے کی جغرافیائی صورتحال غزہ سے بالکل مختلف ہے۔

یہ علاقہ دشوار گزار ہے اور اس کی چوڑائی تقریباً 118 کلومیٹر اور گہرائی 50 کلومیٹر ہے، جو غزہ کی مکمل رقبے سے زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے اس پورے علاقے میں جدید ترین سرنگیں تیار کی ہیں جو بڑی تعداد میں اینٹی ٹینک ہتھیاروں اور کورنیٹ و ثاراللہ میزائلوں سے لیس ہیں۔

زمینی حملے کی صورت میں اسرائیلی ٹینک جنگ کے میدان میں پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیے جائیں گے۔

مصنف اور سیاسی امور کے تجزیہ کار دکتر علی احمد نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ پر جاری جنگ کو ایک قدرتی ردعمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی تحریک کے پاس اپنی راہ میں حائل چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

اسرائیلی قابضین نے ایک جامع جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مزاحمت کو دشمن کے حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس جنگ نے حزب اللہ کو نقصان اور مشکلات سے دوچار کیا ہے لیکن یہ تحریک آہستہ آہستہ اس صدمے پر قابو پا رہی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ حزب اللہ ہمیشہ صیہونی دشمن کے ساتھ ابتدائی جھڑپوں کے دوران آنے والے جھٹکوں پر جلد قابو پا لیتی ہے۔

33 روزہ جنگ کا تجربہ بھی یہی ثابت کرتا ہے، اُس وقت بھی اسرائیل نے جنگ کے آغاز میں حزب اللہ کو سخت نقصان پہنچایا تھا لیکن مزاحمت نے پہلے ہفتے میں ہی ان حملوں کو بے اثر کیا اور صورتحال کا رخ موڑ دیا۔

علی احمد نے مزید کہا کہ حزب اللہ اب بھی پوری قوت کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور دشمن کو بھاری نقصانات پہنچا رہی ہے، اس حقیقت کا مکمل اظہار ہونا صرف وقت کی بات ہے۔

مزید پڑھیں: صہیونی حلقے حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں سے خوفزدہ 

جس طرح صیہونی دشمن گزشتہ سال غزہ کی جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا ویسے ہی لبنان کی مزاحمت کے سامنے بھی وہ کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا۔

مشہور خبریں۔

یوکرین کی جنگ سے فاتحانہ انخلاء کے بارے میں امریکہ کا تاثر خودکشی

?️ 18 فروری 2023سچ خبریں:ایک تجربہ کار امریکی مصنف اور تجزیہ کار سیمور ہرش نے

کاروباری صارفین کی آسانی کیلئے واٹس ایپ میں نیا فیچر متعارف

?️ 20 اپریل 2024سچ خبریں: دنیا کی مقبول ترین میسیجنگ ایپ واٹس ایپ جہاں صارفین

ہندوستان ٹائمز: اگر بھارت پیچھے ہٹتا ہے تو اسلام آباد کشیدگی ختم کرنے کے لیے تیار ہے

?️ 8 مئی 2025سچ خبریں: جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں

حماس کو دہشت گرد قرار دینے والی برطانوی وزیر داخلہ کون ہیں؟/ صہیونیوں سے دوستی اور مہاجرین کے ساتھ سختی

?️ 21 نومبر 2021سچ خبریں:برطانوی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل اس سے پہلے بھی بہت سے

لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں کمی کے آثار نہیں

?️ 1 نومبر 2025لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں کمی کے آثار نہیں  لبنانی

آزاد کشمیر: صدارتی آرڈیننس پر مذاکرات تعطل کا شکار، مظاہرین کی اسلام آباد کی جانب مارچ کی دھمکی

?️ 7 دسمبر 2024 مظفر آباد: (سچ خبریں) آزاد جموں و کشمیر میں شہری تنظیموں

زیلنسکی کا یوکرین کے لیے امریکی امداد پر اعتراض

?️ 3 فروری 2025سچ خبریں: جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں، امریکہ جنگ میں یوکرین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے