سچ خبریں:صہیونی میڈیا کا کہنا ہے کہ اب اس بات کا امکان نہیں رہا کہ اسرائیلی حکام سعودی عرب کو تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے قائل کر سکیں گے۔
اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریاتی ادارے کان نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اسرائیلی حکام 2023 میں سعودی عرب کو تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے قائل کر سکیں گے۔
صہیونی چینل نے مزید تاکید کی ہے کہ صیہونی وزیر خارجہ ایلی کوہن اور ان کے امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن نے ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کی جس میں دونوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کی گئی کوششوں پر تبادلۂ خیال کیا۔
صیہونی چینل نے اس بات پر زور دیا کہ تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے پیش رفت کا کوئی واضح امکان نہیں ہے اور یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ آنے والے مہینوں میں، جلد یا 2023 آخر تک ایسا ہو گا۔
چینل نے تاکید کی کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ سعودی عرب کے غیر شہری مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال کے خدشے کو لے کر ایٹمی توانائی حاصل کرنے کے معاملے میں اس ملک کی مخالفت ہے جب کہ صیہونی حکومت مغربی ایشیا کے علاقے میں ایٹمی ہتھیاروں کی واحد مالک ہے اور امریکہ کی حمایت سے اس نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو بین الاقوامی نگرانی سے دور رکھا ہوا ہے۔
ایک اور صیہونی ٹی وی چینل نے اعلان کیا کہ اسرائیل اب بھی دیگر ممالک کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی مخالفت پر مبنی اپنا روایتی موقف رکھتا جبکہ خود جوہری توانائی کی صلاحیت رکھتا ہے،دوسری جانب صہیونی ویب سائٹ والہ نے اعلان کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے امور کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اور امریکی ایوان صدر کے خصوصی رابطہ کار آموس ہوچسٹین ریاض سے مقبوضہ فلسطین کا سفر کریں گے تاکہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہونے والی بات چیت سے اسرائیلی حکام کو آگاہ کر سکیں۔