سچ خبریں:ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی بہت اچھی خبر ہے۔ اس معاہدے نے متحارب طاقتوں کی نقل و حرکت کو ان دو بڑی معیشتوں اور خلیج فارس کی دیگر مضافاتی ریاستوں کے درمیان دشمنی کو تیز کرنے سے روک دیا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون بن سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ شاہ کے دور حکومت میں ایران اور سعودی عرب خطے پر امریکہ کے تسلط کے جڑواں ستون تھے۔ لیکن آج یہ دونوں ملک خطے میں امن، خوشحالی اور آزادی کے دو ستون بن سکتے ہیں۔
برطانوی سیاسی ماہر نے مزید کہا کہ تاہم ایسا ہونے سے پہلے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے عمل جیسے مسائل پر اختلافات کو دور کیا جانا چاہیے۔ سعودی حکومت نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یقینی طور پر اگر کوئی فلسطین کے مختلف حصوں کے درمیان مصالحت میں مدد کرنے والا ہے تو وہ ایران اور سعودی عرب ہیں۔
بیل نے جاری رکھا کہ یمن کے مسئلے کے بارے میں اگربین الاقوامی اتحاد کے بجائے صرف سعودی عرب ہی جنگ میں ہوتا تو منظر زیادہ روشن ہوتا انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے اصل مفادات یمن میں انصار اللہ یا اس کے بعد کی کسی جامع حکومت کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں ہیں۔ تاہم متحدہ عرب امارات میں اس اتحاد کے شراکت داروں کے اہداف مختلف ہیں اور وہ بظاہر یمن میں مستقل اڈے فراہم کرنے کے خواہاں ہیں خاص طور پر بندرگاہوں اور جزیرہ سوکوتری اور باب المندب جزائر کی ایک سیریز میں۔
اس انگریز ماہر نے مزید کہا کہ اتحاد کی حمایت یافتہ مختلف یمنی افواج میں بھی یمن کے مستقبل کے آئین کی شکل کے بارے میں اختلافات ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو جنوبی یمن کی علیحدگی چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ یمن کے سفارتی حل میں مدد دے سکتا ہے۔