سچ خبریں:صہیونی رہنما سے اردگان کی ملاقات کا اندازہ ان ضروریات اور اندرونی مایوسیوں نیز ترکی کی معاشی بدحالی کی روشنی میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس ملاقات سے کسی عملی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایسا لگتا تھا کہ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی تشکیل اور اس کی سرگرمیاں داخلی اور علاقائی تغیرات کا ایک نیا باب اور صورتحال کے حوالے سے انقرہ کے رویے کی تبدیلی ہے اس لیے کہ اس پارٹی کا نصب العین اور نعرے کا نقطہ نظر ان اصولوں پر مبنی تھا جس نے ترک قوم اور رائے عامہ کو یہ باور کرایا کہ اے کے پی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ترک رائے عامہ میں AKP کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے جس کی گزشتہ 18 سالوں میں اس کی مثال نہیں ملتی، بلاشبہ پارٹی کے مرکزی سیاست دانوں اور فیصلہ سازوں نے کبھی بھی اس عوامی ردعمل کی صحیح تشریح نہیں کی یا بنیادی طور پر اس کے غلط رویے اور اس کی خارجہ پالیسی میں اس کے بہت سے موڑ کے اصل محرکات کا اندازہ نہیں لگانا چاہتے تھے،یہاں تک کہ یہ اصرار پارٹی کے اندر تقسیم کا باعث بنا جس کے نتیجہ میں پارٹی کی کچھ اہم شخصیات کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔
اردگان اور ان کی پارٹی کی اہم خصوصیت اعلی کاروبار اور غیر مستحکم اور غیر تشخیص شدہ طرز عمل کے ساتھ ساتھ ملکی اور انتخابی استعمال کے لیے غیر ملکی واقعات اور پیش رفت کا استعمال ہے۔