سچ خبریں:غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے جرائم کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آئندہ امریکی حکومت ان معاملات میں کیا پالیسی اپنائے گی۔
امریکہ، صیہونی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک، اس کا سب سے بڑا مالی، عسکری اور سیاسی حامی رہا ہے۔
براون یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ صیہونی حکومت امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی امداد حاصل کرنے والی حکومت ہے جسے 1959 سے اب تک 251.12 ارب ڈالر دیے گئے ہیں جس میں افراط زر کے نرخ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
یہ پڑھیں: غزہ جنگ بندی کی امریکی تجویز کی تفیصلات کا انکشاف
تحقیق کے مطابق امریکہ نے 7 اکتوبر کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد کم از کم 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد صیہونی حکومت کو فراہم کی ہے۔
5 نومبر 2024 کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جو چار سال کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کریں گے، میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ جہتی حمایت کا موضوع زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
آئندہ حکومت میں امریکی صدر صیہونی حکومت کے جرائم اور غزہ کی جنگ کے حوالے سے کیا موقف اختیار کرے گا، اس پر دو منظرنامے ہیں؛ ایک ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کمالا ہیرس کی کامیابی کی صورت میں اور دوسرا ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کی صورت میں۔
ہیرس حکومت میں صیہونی حکومت کی حمایت اور جنگ بندی پر زور
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہیرس وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئیں، تو وہ حمایت اور جنگ بندی کے لیے کام کریں گی، اگرچہ بائیڈن کے دور میں وائٹ ہاؤس کی کوششوں کے باوجود جنگ بندی نہ ہو سکی اور نیتن یاہو نے بے گناہ فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود بائیڈن سے پوچھے بغیر لبنان میں نیا محاذ کھول لیا
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک مشرق وسطی فاؤنڈیشن(MEI) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کمالا ہیرس کی پالیسیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ممکنہ ہیرس حکومت کی مشرق وسطیٰ، خصوصاً صیہونی حکومت، فلسطین اور لبنان سے متعلق پالیسیوں کی بنیاد اس اصول پر ہوگی کہ دونوں فریقین میں سے کسی کو کوئی مخصوص اقدام کرنے پر مجبور کرنا، دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ ہیرس نے صیہونی بستیوں کی توسیع کی مخالفت کا اظہار کیا ہے لیکن وہ بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرتی ہیں اور اس بات کی حامی ہیں کہ تمام مذاہب کے افراد کو اس مقدس شہر تک رسائی حاصل ہو۔
ہیرس کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو ضرورت کے وقت امداد فراہم کرنے کی حمایت کرتی ہیں، بشرطیکہ یہ امریکی قوانین کے مطابق ہو۔ تاہم، وہ اقوام متحدہ میں پابندیوں کے ذریعے صیہونی حکومت کی قانونی حیثیت کو کم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالف ہیں، مگر اس سلسلے میں امریکہ کے آزادی اظہار کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں۔
اس تھنک ٹینک نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد امیدوار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہیرس اسرائیل اور لبنان کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے آزاد لبنان کے ذریعے ایک سفارتی حل چاہتی ہیں۔
صیہونی حکومت کی امیدیں ٹرمپ کی کامیابی سے وابستہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے، تو ان کی پالیسی غالباً صیہونی حکومت اور اس کی غزہ و لبنان میں کارروائیوں کی حمایت میں ہوگی۔
ٹرمپ نے ہمیشہ صیہونی حکومت کی مضبوط حمایت کی ہے اور ممکنہ طور پر اس کے دفاعی حق پر زور دیتے ہوئے اس کے وسیع عسکری اقدامات کی توثیق کریں گے۔
اس کے علاوہ، ٹرمپ شاید مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت بڑھانے کے حامی ہوں تاکہ اپنے اتحادیوں کو مضبوط کر سکیں اور مزاحمتی محاذ کے مزید طاقتور ہونے کو روک سکیں، جو ابھی تک تمام امریکی حمایت کے باوجود پورا نہیں ہو سکا اور مزاحمتی گروہ خطے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسی طرح، ٹرمپ جنہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں صیہونی حکومت کے مفاد میں معاہدہ آبرہام کو فروغ دیا، حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ موجودہ صورتحال نے اس معاہدے کے امکانات کو دھندلا کر دیا ہے لیکن اگر وہ دوبارہ صدر بنے تو اس موضوع کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے۔
تھنک ٹینک مشرق وسطی فاؤنڈیشن کے مطابق ریپبلکن پارٹی نے ٹرمپ حکومت کی مشرق وسطیٰ کے تنازع پر خارجہ پالیسی کے بارے میں دو نکات پر اکتفا کیا ہے کہ اسرائیل کا ساتھ دینا اور مشرق وسطیٰ میں امن واپس لانا۔
اگرچہ ٹرمپ اور ریپبلکنز کی صیہونی حکومت اور نیتن یاہو کی حمایت سب پر واضح ہے لیکن جنگ کو ہوا دینے والے ممالک، جیسے امریکہ اور صیہونی حکومت، کی طرف سے امن کی بات کرنا ایک تلخ طنز سے کم نہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو غزہ اور لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے حوالے سے چند ممکنہ پالیسیاں اپنائی جائیں گی:
1. صیہونی حکومت کے لیے فوجی اور انٹیلی جنس امداد میں اضافہ: ٹرمپ خاص طور پر حماس اور حزب اللہ کے ساتھ بڑھتے تنازعات کی صورت میں صیہونی حکومت کے لیے فوجی امداد کو بڑھانے کی حمایت کریں گے۔
2. عرب ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کی قبولیت کے لیے ثالثی: ٹرمپ غالباً عرب ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات کو معمول پر لانے کی سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے، جیسا کہ معاہدہ ابرہام میں ہوا تھا۔
وہ صیہونی حکومت اور فلسطینی گروہوں کے درمیان براہ راست مذاکرات سے گریز کرتے ہوئے عرب ممالک کی حمایت سے صیہونی حکومت کی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
3. خطے میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی: جیسا کہ خطے میں تنازعات کے آغاز پر امریکی جنگی طیارے اور بحری جہاز صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے بھیجے گئے تھے، اسی طرح ٹرمپ کی حکومت میں یہ مداخلتی موجودگی جاری رہنے اور ممکنہ طور پر بڑھنے کا امکان ہے جبکہ امریکہ کی جنگی پالیسیوں پر عالمی برادری کی طرف سے تنقید ہوتی رہی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی ریاستی نظام؛ صدرِ کے اختیارات اور فرائض
مزید یہ کہ ٹرمپ کے دور میں افغانستان سے انخلا اور عراق میں ناکامی جیسی مسلسل ناکامیوں نے امریکی خارجہ پالیسی پر شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے، جس کا اثر آئندہ انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔