ٹرمپ کا خلیج فارس کا دورہ؛ امریکی اسلحہ کی فروخت اور علاقائی حکمرانوں کی ناکام سرمایہ کاری

ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیج فارس کے حالیہ دورے میں اربوں ڈالر کے معاہدے کیے گئے، لیکن خطے کے حکمرانوں کی امریکہ پر انحصار اور اسلحہ کی خریداری نے پائیدار سکیورٹی کے بجائے مزید عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں اور عرب حکمرانوں کی قمار بازی خطے کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہیں۔

?️

سچ خبریں:ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیج فارس کے حالیہ دورے میں اربوں ڈالر کے معاہدے کیے گئے، لیکن خطے کے حکمرانوں کی امریکہ پر انحصار اور اسلحہ کی خریداری نے پائیدار سکیورٹی کے بجائے مزید عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں اور عرب حکمرانوں کی قمار بازی خطے کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی فوج کی حالیہ یمن کے مجاہدین کے ہاتھوں شکست اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ خطے کے حکمرانوں نے ہارنے والے گھوڑے پر شرط لگا دی ہے۔
 معروف امریکی جریدے نیویارکر کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار خلیج فارس کے جنوبی علاقے کا دورہ کیا، اس دورے کا اصل مقصد امریکی معیشت اور اسلحہ ساز صنعتوں کے لیے تیل کے ڈالر جمع کرنا تھا۔
خلیجی تعاون کونسل کے اراکین، جو اپنے مستقبل کے منصوبے بنا کر اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ٹرمپ کی آمد کو اپنی بادشاہت مضبوط کرنے اور نئی معاشی مواقع حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس خطے میں پیسہ لگانے کے بجائے یہاں سے سرمایہ نکالنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، یہی رجحان ٹرمپ اور خلیجی ممالک کے رہنماؤں کے مشترکہ اجلاس میں بھی دیکھنے کو ملا۔
ٹرمپ نے اپنے اس دورے کے دوران ایران اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے سیاسی و ماحولیاتی حالات کا مذاق اڑاتے ہوئے ان صحرائی ممالک کی شبیہ کو بہتر بنانے کی ناکام کوشش کی۔
 اس پس منظر میں یہ سوال اہم ہے کہ خلیجی ریاستوں کے امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدوں سے خطۂ مغربی ایشیا کو کیا خاص فائدہ پہنچا؟
خلیج فارس میں ٹرمپ کا کاروبار
اپنے مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے کے دوران، ٹرمپ نے 13 سے 16 مئی تک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اس سفر میں امریکی کابینہ کے اعلیٰ اراکین اور معروف تاجر ایلون مسک بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس دورے سے قبل امریکہ اور خلیجی تعاون کونسل کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 180 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اس دورے کے دوران، سعودی عرب کے ساتھ 600 ارب ڈالر، قطر کے ساتھ 243 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ 200 ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئے۔
اس کے علاوہ، متحدہ عرب امارات کی جانب سے 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی خبر بھی منظر عام پر آئی۔ ٹرمپ کے اس دورے کے اختتام پر مجموعی طور پر ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے، جن میں ٹرانزٹ، مصنوعی ذہانت، ہوابازی، خلائی سائنس، معدنیات، صحت اور طبی تعلیم کے شعبے شامل تھے۔
دفاعی معاہدے اور امریکی مفادات
اس دورے میں ٹرمپ نے عرب ممالک کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے بھی کیے۔ محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے درمیان دو طرفہ ملاقات کے بعد اسٹریٹجک اکنامک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط ہوئے، جب کہ سعودی مسلح افواج کی اپ گریڈنگ کے لیے بھی ایک معاہدہ طے پایا۔
اس کے علاوہ 142 ارب ڈالر کے اسلحہ سودے پر بھی اتفاق ہوا۔ قطر کے ساتھ 160 بوئنگ طیاروں کی خریداری کا 200 ارب ڈالر کا معاہدہ اور جدید فوجی سازوسامان کی خریداری کے دیگر معاہدے بھی کیے گئے، جن میں ڈرون اور اینٹی ڈرون سسٹمز شامل ہیں۔
عرب حکمرانوں کی غلط توقعات اور امریکی وعدے
اگرچہ خطے کے حکمران امریکہ کو اپنی سکیورٹی کا ضامن سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں امریکی پالیسیوں نے انہیں بارہا مایوس کیا ہے۔ عرب بہار کے دوران اور یمن میں مزاحمتی قوتوں کے حملوں نے امریکہ کی ضمانتوں کی حقیقت بے نقاب کر دی۔
امریکہ کی کوشش ہے کہ اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے ذریعے ایک نیا اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی بلاک قائم کر کے چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے اثرات کو کم کیا جائے۔
تاہم ایران اور مزاحمتی گروپوں پر دباؤ ڈالنے اور شمالی خلیج فارس میں اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ نے پابندیاں، دہشت گردی اور جنگ جیسے حربے استعمال کیے، جن کے نتائج عراق، شام اور لبنان میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
حالیہ صورت حال میں شام کے حوالے سے بھی امریکہ نے عرب ممالک کے کہنے پر پابندیاں ہٹانے اور شام کو ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں، جس کا اصل مقصد مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکہ کو خطے کے توانائی کے وسائل تک رسائی دینا ہے۔
نتیجہ
یمن میں دنیا کی سب سے بڑی فوج کی شکست سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے حکمرانوں نے امریکہ پر انحصار کر کے غلطی کی ہے۔ امریکی پروپیگنڈا اپنی فوجی طاقت کو ناقابل شکست ظاہر کرتا ہے، لیکن عملی میدان میں امریکی فوج بھی شکست کھا سکتی ہے۔
 اگر امریکہ اپنے اسٹریٹجک اثاثوں کی مکمل حفاظت نہیں کر سکتا تو وہ عرب ممالک کی سکیورٹی اور مفادات کی بھی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سکیورٹی کی تجارت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے: کیا یہ پائیدار امن لائے گا یا خطے میں ایک اور عدم استحکام کے چکر کی شروعات ہوگی؟

مشہور خبریں۔

امریکی حکام کو امریکہ سے زیادہ اسرائیل کو بچانے کی فکر

?️ 7 جنوری 2024سچ خبریں: امریکی محکمہ خارجہ کے اعلان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ

الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا، سپریم کورٹ کے ججوں کی دوسری وضاحت

?️ 18 اکتوبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں کا

بلوچستان عوامی پارٹی تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر تقسیم

?️ 24 مارچ 2022اسلام آباد ( سچ خبریں )وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں

امریکا کی انسانی حقوق کے نام پر دنیا کو بیوقوف بنانے کی سازش، چین نے اہم الزام عائد کردیا

?️ 27 جون 2021بیجنگ (سچ خبریں) چین نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی

یوکرین کے بحران میں امارات اور سعودی عرب کے درمیان الگ ڈیل کی کہانی

?️ 8 مارچ 2022سچ خبریں:    روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی پر متحدہ عرب

ہالینڈی محقق کی 3 دن پہلے ترکی میں آنے والے خوفناک زلزلے کی پیش گوئی!

?️ 7 فروری 2023سچ خبریں:ہالینڈ کے ایک محقق نے ترکی اور شام میں آنے والے

ایران سے تعلقات نہیں توڑیں گے:یمنیوں کا امریکہ کو جواب

?️ 20 فروری 2021سچ خبریں:یمنی انصار اللہ تحریک نے امریکی صدر جو بائیڈن کی اسلامی

لاپتا افراد کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو طلب کر لیا

?️ 27 ستمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے