سچ خبریں: اسرائیلی قابض حکومت غزہ سے لے کر لبنان تک اپنی ناکامیوں کی حکمت عملی کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سناریو میں قتل عام، آگ کی پٹیاں بچھانا اور جعلی پروپیگنڈہ شامل ہیں، تاکہ مزاحمت کے سامنے اپنی شکست اور عوام کی ثابت قدمی کو چھپایا جا سکے۔ یہ حکمت عملی اسرائیل کی جانب سے لبنان کے مختلف علاقوں پر شدید ترین فضائی حملوں اور وحشیانہ بمباریوں کے ذریعے دہرائی جا رہی ہے۔
برطانوی ادارہ ایروایرز کی سربراہ اور جنگی تنازعات کی نگرانی کرنے والی امیلی تریپ نے اسرائیلی قابض فوج کے حوالے سے کہا کہ اسرائیلی فوج نے لبنان میں 1600 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور یہ تعداد 21ویں صدی کی جنگوں میں بے مثال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لبنان کشیدگی کے بارے میں پوپ فرانسس کا بیان
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف، ہرتزی ہالیوی نے لبنان میں کشیدگی کو بڑھانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنے حملوں کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھے گا اور غزہ میں کی گئی نسل کشی، تباہی اور بڑے پیمانے پر بربادی کو لبنان میں دہرانے کی کوشش کرے گا۔
فلسطینی میڈیا سینٹر کے مطابق، لبنان پر شدید حملوں کے فوراً بعد، اسرائیل نے اپنی وحشیانہ بمباری کے لیے جواز گھڑنے شروع کر دیے، بالکل ویسے ہی جیسے غزہ میں ہوا تھا۔
اسرائیلی فوج نے شہریوں پر بمباری کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک ویڈیو کلپ جاری کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جنوبی لبنان کے ایک گھر میں کروز مزاحمتی میزائل رکھے گئے تھے۔
یہ منظر غزہ کے الشفاء میڈیکل کمپلیکس کی اس ویڈیو کی یاد دلاتا ہے جس میں اسرائیل نے اس کمپلیکس کو حماس کی قیادت اور کنٹرول کا مرکز اور اسلحے کا ذخیرہ دکھانے کی کوشش کی تھی۔
اس ویڈیو کو دو مراحل میں اس کمپلیکس پر حملے کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا، جو آخرکار اس طبی مرکز کی مکمل تباہی پر ختم ہوا۔
تاہم، اسرائیل اس دعوے کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا اور عالمی آزاد میڈیا نے اس کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا جس سے یہ اسرائیلی دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔
اسرائیلی حکومت نے ایک بار پھر حزب اللہ کے مجاہدین پر الزام لگانا شروع کر دیا ہے کہ وہ لبنان میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ وہی جھوٹ ہے جسے اسرائیل نے غزہ پر مسلسل حملوں کے دوران بھی استعمال کیا تھا، اور اسے شہریوں کے قتل عام کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
جبکہ شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ خود اسرائیلی قابض حکومت غزہ اور لبنان کی جنگوں میں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
لبنان میں اسرائیلی حکومت کے مجرمانہ حملوں کے آغاز سے ہی قتل عام اور نفسیاتی جنگ کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے نیز ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔
صیہونی حکومت نے غزہ میں استعمال کی جانے والی آگ کی کمربند کی پالیسی کو لبنان میں بھی منتقل کر دیا ہے اور شہریوں کے خلاف ہولناک قتل عام کیا جا رہا ہے۔
مکینوں سمیت عمارتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور قلیل وقت میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنا کر بڑے پیمانے پر دھماکوں اور تباہی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، ایک دن میں اسرائیل کی غیر معمولی بمباری کے نتیجے میں لبنان میں 558 افراد شہید اور درجنوں گھر تباہ ہو گئے۔
غزہ پر جاری جنگ میں اسرائیلی حکومت نے اس پٹی بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے تاکہ غزہ کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیا جائے اور اب یہی دھمکی لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا کر دی جا رہی ہے۔
روزنامہ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو کی جانب سے جنوبی لبنان پر کیے جانے والے حملے اور اسرائیلی بمباری کامیاب نہیں ہو سکے گی اور نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹایا جانا چاہیے کیونکہ اب یہ حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی ہے کہ نیتن یاہو اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل جنگوں کا محتاج ہے۔
لبنان میں جو تباہی اور دہشت اس نے پھیلائی ہے وہ اس کی جارحیتوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے اور نیتن یاہو لبنان کے جنوبی حصے کو اور شاید پورے ملک کو دوسرا غزہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
گارڈین کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ 2006 میں اسرائیل کا لبنان پر حملہ ناکام رہا تھا اور اب بھی وہ ناکامی سے دوچار ہوگا ،نیتن یاہو کی اسٹریٹجی ہمیشہ کی طرح شکست خوردہ ہے۔
اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ نے پہلے سے زیادہ میزائل اسرائیل کی طرف داغے ہیں اور ان کی رینج میں بھی اضافہ کیا ہے جبکہ اسرائیلی پناہ گزین اب بھی محفوظ طور پر نوآبادیاتی علاقوں میں واپس نہیں جا سکے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران اسرائیلی حملے، پیجر ڈیوائسز کے دھماکے اور حزب اللہ کے اہم رہنماؤں کے قتل دراصل ایک مستقل جنگ کو جاری رکھنے کی تیاری کے طور پر کیے گئے،نیتن یاہو اپنی احمقانہ پالیسی کے ذریعے سوچتا ہے کہ اس طرح وہ اقتدار میں رہ سکتا ہے۔
دوسری جانب امل شحادہنے روزنامہ انڈیپینڈنٹ میں لکھا کہ اسرائیل نے اپنے جھڑپوں میں شدت پیدا کر دی ہے اور اپنی پالیسی اس مفروضے پر بنا رکھی ہے کہ جنگ کو بڑھانے سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔
یہ وہی حکمت عملی ہے جو اسرائیل نے پہلے غزہ میں حماس کے خلاف استعمال کی تھی، یہ سوچتے ہوئے کہ مزاحمت کے رہنماؤں کا پیچھا کر کے اور تصادم کو بڑھا کر وہ انہیں اپنی شرائط ماننے پر مجبور کر دے گا، جیسے کہ فیلادلفیا محور میں فوج کو برقرار رکھنا اور قیدیوں کا تبادلہ، تاہم، غزہ میں یہ منصوبہ ناکام ہوا اور آج یہی حکمت عملی لبنان میں دہرائی جا رہی ہے۔
شحادہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل نے لبنان میں بڑے پیمانے پر شہری علاقوں پر حملے شروع کر دیے ہیں تاکہ حزب اللہ پر دباؤ بڑھایا جا سکے اور اسرائیلی حکام کے مطابق جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک فوجی حکمت عملی کا پہلا مرحلہ یعنی شمالی باشندوں کی ان کے گھروں میں واپسی مکمل نہیں ہو جاتی۔
اسرائیل اس بار لبنان میں جنگ کو جاری رکھنے پر مُصر ہے، چاہے یہ جنگ کئی دنوں تک کیوں نہ چلے تاکہ حزب اللہ کی فوجی تنصیبات اور اسلحے کے ذخائر کو تباہ کیا جا سکے خاص طور پر غزہ سے پیچھے ہٹنے اور حماس کی دوبارہ مضبوطی کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی تنقید کے پیش نظر۔
شحاده نے نشاندہی کی کہ اگرچہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کے غزہ پر حملے کو ایک سال ہو چکا ہے لیکن یہ حکومت اپنے کسی بھی اعلان کردہ مقصد کو حاصل نہیں کر سکی۔
یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیل کی اپنائی گئی پالیسی دراصل نیتن یاہو کی اتحادی کابینہ کو برقرار رکھنے اور ان کے ذاتی مفادات کو محفوظ رکھنے پر مبنی ہے۔
اس منطق کے تحت، اسرائیل تقریباً ایک سال سے بغیر کسی اسٹریٹجک منصوبے کے، جو جنگ اور اس کے بعد کے حالات کے لیے ایک وقت کا تعین کرے، تصادم جاری رکھے ہوئے ہے۔
آج بھی اسرائیل بغیر کسی واضح حکمت عملی کے لبنان کے خلاف جنگ میں داخل ہو چکا ہے، تاکہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کر کے اپنے بستیوں کے باشندوں کو ان کے گھروں میں واپس بھیج سکے۔
عالم عرب کے سیاسی تجزیہ کاروں، جیسے محمد ابو لیلی کے مطابق، نیتن یاہو ، گالانت، بن گویر، اور اسموتریچ کی قیادت میں صیہونی اسٹریٹجی اور ذہنیت تباہی، قید و بند، نسل کشی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جرائم پر مبنی ہے۔
ابو لیلی نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جولائی 2006 کی جنگ میں، جو 33 دن تک جاری رہی، 1300 لبنانی شہید ہوئے۔
جبکہ موجودہ جنگ میں، لبنانی وزارت صحت کے مطابق، صیہونی فضائیہ کے پہلے ہی دن کے حملے میں 550 افراد شہید ہوئے، جو اس دور کی جنگ میں دشمن صیہونی کی مجرمانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔
واضح رہے کہ حزب اللہ لبنان نے ہفتے کو ایک بیان میں اس تنظیم کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ سید حسن نصراللہ جمعہ کی شام جنوبی بیروت کے ضاحیہ علاقے پر کیے گئے صیہونی حکومت کے مجرمانہ حملے میں شہید ہوئے۔
مزید پڑھیں: لبنان دوسرا غزہ نہیں بن سکتا؛کیوں؟
حزب اللہ نے اپنے بیان میں شہید سید حسن نصراللہ کے ساتھ عہد کیا کہ وہ دشمن کے خلاف جہاد، غزہ اور فلسطین کی حمایت نیز لبنان کے کا دفاع جاری رکھے گی۔