سچ خبریں: علاقائی مسائل کے معروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے صیہونی حکومت کی سب سے بڑی اسٹریٹجک غلطی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے تل آویو کے لیے خطرناک نتائج کی نشاندہی کی ہے۔
علاقائی مسائل کے معروف تجزیہ کار اور روزنامہ رأی الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے کالم میں نیتن یاہو کی جانب سے سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد عرب دنیا میں مایوسی اور تسلیم کا احساس پیدا کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔
عطوان کے مطابق، نیتن یاہو ہر سال اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے اور دنیا بھر میں ہزاروں میڈیا کارکنان کو اس پروپیگنڈے میں شامل کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک نصراللہ کو شہید کر کے اسرائیل کو کیا ملا؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے حکمرانوں کی حوصلہ افزائی سے کچھ عرب بھی تل آویو کے ساتھ اس کوشش میں شریک ہو جاتے ہیں۔
عطوان نے اعتراف کیا کہ یہ حملے حزب اللہ کے بعض عناصر کے لیے ایک وقتی دھچکا ضرور تھے لیکن یہ اثر دیرپا نہیں ہوگا اور چند دنوں میں اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ جنگی نقصان اور مایوسی اب بھی صیہونی دشمن اور اس کے آبادکاروں پر ہی غالب ہے جو اب جنگ کے نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔
عطوان نے حالیہ دنوں میں حزب اللہ کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کے اندر کیے جانے والے حملوں کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کے اسلحہ کا ذخیرہ اور اس کے طاقتور اور درست نشانے والے میزائل ابھی تک محفوظ ہیں، یہ وہی میزائل ہیں جو حیفا، نہاریا اور صفد تک مار کر چکے ہیں، ابھی تو شروعات ہے۔
عطوان نے مزید کہا کہ مزاحمتی تحریک ایک گہری جڑوں والا نظریہ ہے جو اس کے کمانڈروں اور رہنماؤں کی شہادت سے ختم نہیں ہوتا، صیہونی حکومت کی دھمکیاں اور غصہ مقبوضہ علاقوں میں ناامیدی اور بحران کو بڑھانے کی کوشش ہے، اور یہ ویسا ہی وقت ہے جب سید حسن نصراللہ نے سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد حزب اللہ کا پرچم تھام لیا تھا لیکن اب بھی نصراللہ کا جانشین اسی راستے پر چلے گا، بلکہ شاید زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرے گا
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو جو اس کارروائی کے ذریعے خود کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، زیادہ دیر تک خوش نہیں رہ سکے گا۔
عطوان نے زور دیا کہ ان کے پاس حزب اللہ کی نئی قیادت کے بارے میں معلومات ہیں اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نئی قیادت صیہونی قبضہ کاروں سے نمٹنے اور حزب اللہ کے شہداء کا بدلہ لینے، حزب اللہ کی صفوں کو مضبوط کرنے اور پیدا ہونے والے تمام سیکیورٹی خلا کو بند کرنے میں زیادہ سخت اور مضبوط ہوگی۔
یہ ممکن ہے کہ نئی قیادت کے تحت حیفا، تل ابیب، بئر السبع، عکا اور مقبوضہ قدس پر حملے اور اسرائیلی انفراسٹرکچر، جیسے بندرگاہوں، ہوائی اڈوں اور بجلی و پانی کے مراکز کو نشانہ بنانے کے بارے میں اسٹریٹجک فیصلے کیے جائیں۔
عطوان نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ نیتن یاہو نے ہی جنگ کا دائرہ وسیع کیا اور غزہ اور مغربی کنارے میں نسل کشی اور مظالم کو لبنان تک پہنچایا۔
اب اسے اور اس کے حامی امریکہ کو اس ناکام جوے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا، کیونکہ امریکہ کی تمام علاقائی مفادات اور اڈے خطرے میں ہیں۔
عطوان نے صیہونی حکومت کے میزائل حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الحدیدہ کی بندرگاہ اور اس کے ہوائی اڈے پر ہونے والا یہ حملہ بغیر جواب نہیں رہے گا۔
یہ مبالغہ نہیں ہوگا اگر کہا جائے کہ یمن کے بنیادی ڈھانچے پر میزائل حملہ اسرائیلی قابضوں کی سب سے بڑی اسٹریٹجک غلطی تھی جس کی وجہ سے یمنی اس بار نہ صرف غزہ کے عوام کی حمایت کے لیے، بلکہ اپنے شہداء کے انتقام کے لیے بھی مقبوضہ علاقوں پر حملے کریں گے۔
مزید پڑھیں:کیا سید حسن نصراللہ کی شہادت سے مزاحمتی تحریک شکست کھا جائے گی؟حماس کا بیان
عطوان نے مزید کہا کہ نیتن یاہو اور اس کے جرنیلوں کو یمنی میزائلوں اور ان کے جدید ڈرونز کا مزید انتظار کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ یمن کے ہزاروں مجاہد لبنان جائیں اور اس جنگ میں حصہ لیں، وہ نہ صرف اپنے دفاع کے لیے، بلکہ لبنان کے دفاع اور الجلیل کی آزادی کے لیے عراقی اور شامی بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔