سچ خبریں: اردنی شہری کی صہیونی مخالف کارروائی کی اہمیت اور حزب اللہ کے حالیہ آپریشن کے بعد اسرائیلی یونٹ 8200 کے کمانڈر کی صورتحال کے بارے میں شکوک و شبہات، عرب دنیا کے اخبارات میں زیر بحث موضوعات ہیں۔
چند روز قبل ایک اردنی شہری کی جانب سے الکرامہ گزرگاہ (پل ملک حسین) پر اسرائیلی عناصر کے خلاف خودجوش کارروائی کے بعد اردن بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عرب میڈیا اس آپریشن کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الکرامہ آپریشن کو نافذ کرنے والا اردنی نوجوان کون ہے؟
القدس العربی : القدس العربی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ الکرامہ آپریشن کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے؛ یہ کارروائی اردنی عوام کے اسرائیلی جرائم کے خلاف غصے کا اظہار ہے۔
اردن کی فلسطین کے ساتھ سب سے طویل سرحد ہے اور ایسے خودجوش حملے دوبارہ بھی ہو سکتے ہیں، اس آپریشن پر اردنی عوام کا ردعمل جشن کی مانند تھا، گلی کوچوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
الکرامہ آپریشن، جس کے انجام دینے والے کو ایک ہیرو کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے، نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
رائے الیوم : رائے الیوم اخبار نے صیہونی یونٹ 8200 کے بارے میں لکھا کہ یہ یونٹ اسرائیلی جاسوسی کے نظام کا ایک اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ تل ابیب اس کے کمانڈر یوسی سارییل کے مستقبل کے بارے میں شدید خفیہ کاری سے کام لے رہا ہے۔
یاد رہے کہ حزب اللہ کے حالیہ اہم آپریشن کے بعد یوسی سارییل کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں کہ آیا وہ مارا گیا ہے یا عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
یوسی نے دو بڑے سکیورٹی نقائص کا مظاہرہ کیا؛ پہلا، طوفان الاقصی آپریشن کی شناخت کرنے میں ناکامی اور دوسرا، اپنی شناخت کو چھپانے کے پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھ ماہ بعد اپنی اصلی شناخت کو سوشل میڈیا پر ظاہر کر دینا۔
سوال یہ ہے کہ یوسی کے ساتھ کیا ہوا؟ اگر حزب اللہ نے اسے ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تو اس کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا؟ ہو سکتا ہے کہ اسے مزاحمتی قوتوں کے بجائے خود اسرائیلی عناصر نے قتل کیا ہو تاکہ اس کے ساتھ اسرائیل کی جاسوسی کے تمام راز دفن ہو جائیں، یا پھر اسے جعلی شناخت کے ساتھ کسی خفیہ مقام پر چھپا دیا گیا ہو۔
الاخبار: لبنانی اخبار الاخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیل اور امریکہ ہر قسم کے ممکنہ تنازعات کے لیے لبنان کے ساتھ تناؤ کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی مرکزی کمان کے کمانڈر نے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا اور اسرائیلی حکام سے حزب اللہ کے ساتھ جھڑپوں اور شمالی محاذ پر ممکنہ وسیع جنگ کے بارے میں مشاورت کی۔
یہ اس وقت ہو رہا ہے جب حزب اللہ لبنان فلسطین کے مظلوم عوام اور اس خطے میں مزاحمتی قوتوں کی حمایت کے لیے اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیلی فوجی مقامات کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
الثورہ: شامی اخبار الثورہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 20 لاکھ فلسطینی غزہ کی پٹی میں جنگ اور بے دخلی کی آگ میں جھلس رہے ہیں نیز قحط اور بھوک کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دن گزرتے جا رہے ہیں اور غزہ کے لاکھوں باشندوں، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں رہے۔
بیماریوں کے پھیلاؤ اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی ، محاصرے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے وہاں کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
صہیونی طویل عرصے سے غزہ کی پٹی کے باشندوں کے خلاف قحط اور بھوک کی جنگ چھیڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
الوطن: شامی اخبار الوطن نے الکرامہ آپریشن کے بارے میں لکھا کہ دشمن صہیونی کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ وہ ایسی جگہ پر ایک آپریشن کا سامنا کرے جہاں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
نیتن یاہو جو ہر روز غزہ میں بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں کی ہلاکت اور ان کے سازوسامان کی تباہی کی خبریں سنتے ہیں، اس آپریشن کی خبر سن کر کہا کہ ان کے لیے ایک سخت دن آنے والا ہے۔
یہ صرف تین صہیونیوں کی ہلاکت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اردن، جسے تل ابیب محفوظ سمجھتا تھا، سے اس طرح کا طاقتور وار ہوا۔
ایسے آپریشن مزاحمتی قوتوں کے حوصلے کو بڑھاتے ہیں، خاص طور پر جب غزہ کی پٹی پر حملے کے تقریباً ایک سال بعد یہ کارروائی ہوئی ہے۔
یہ آپریشن اسرائیل کے خلاف ایک نئی لہر کی شروعات اور خطے میں ایک نیا محاذ کھولنے کا آغاز ہو سکتا ہے۔
المراقب: عراقی اخبار المراقب نے لکھا کہ جہاں ایک طرف فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم پر صیہونی حکام کی عالمی سطح پر مذمت اور فلسیطنیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں کچھ عربی میڈیا ادارے، جیسے العربیہ اور الحدث، الٹا تل ابیب کی حمایت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا اردنی فوج صیہونی حکومت کے خلاف کارروائی کرے گی ؟
اس حوالے سے غزہ کی حکومت کے اطلاعاتی دفتر نے العربیہ اور الحدث کے غیر پیشہ ورانہ رویے پر برہمی کا اظہار کیا ہے، یہ دونوں چینل اپنی رپورٹس اور انٹرویوز کے ذریعے اسرائیلی حکومت کی جھوٹی داستانوں کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
المسیرہ: یمنی اخبار المسیرہ نے اردنی شہری کے آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے بہترین کام کیا کہ شہید ہو گیا، کیونکہ اگر وہ زندہ رہتا تو اردنی عدالت اسے کم از کم 15 سال قید کی سزا سناتی! اردن کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، احمد الدقامسه جس نے 10 سے زائد صہیونیوں کو ہلاک کیا تھا، کو بھی قید کی سزا بھگتنی پڑی۔