اسلام آباد: (سچ خبریں) روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں ایک روپے 16 پیسے کا اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 227 روپے 29 پیسے پر بند ہوا، جو جمعہ کو بند ہونے والے 228 روپے 45 پیسے کی سطح سے 0.51 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی ای پی) کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کے رجحان کو کیسے برقرار رکھا جائے اور ملک مخالف عناصر کو فائدہ اٹھانے سے کس طرح روکا جائے۔
انہوں نے روپے کی قدر میں استحکام کی وجہ اسحق ڈار کو ٹھہراتے ہوئے انہیں امید کی کرن قرار دیا۔
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسحق ڈار اس حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈالر کی قدر پر کڑی نظر رکھتے ہیں، اسحق ڈار کا بھی یہی خیال ہے کہ ڈالر کی قدر میں 160 سے 170 روپے سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ہم اسحق ڈار کو آخری امید سمجھتے ہیں
انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستانی روپے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ہمیں امید ہے کہ ڈالر جلد 200 روپے تک پہنچ جائے گا۔
ظفر پراچہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ روپے کی قدر میں اضافے کے دوران برآمد کنندگان کی جانب سے آنے والے دباؤ کا مقابلہ کیا جائے، عالمی منیی کی وجہ سے ملکی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے، ڈالر کے مقابلے پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی، یہاں تک کہ جب آمدنی کو ڈالر میں تبدیل کیا گیا تو یورپ اور ہماری برآمدات یکساں تھیں۔
جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ برآمدات میں کمی ہوسکتی ہے لیکن حکومت کو دباؤ میں نہیں آنا چاہیے، گزشتہ چند دہائیوں میں برآمد کنندگان کی کارکردگی بہتر نہیں، پاکستان درآمد پر انحصار رکھتا ہے اور اگر ہم برآمد کنندگان کے لیے ڈالر کی شرح میں اضافہ کرتے رہے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔
ای سی اے پی کے جنرل سکریٹری نے حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت سمندر پار پاکستانیوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی حمایت کرے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترجیح دے کر متبادل ذرائع سے ملک میں آنے والے ڈالر میں اضافے پر توجہ دے
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت اور امیگریشن پالیسیوں پر نظرثانی کرے، ان ممالک پر عائد سخت قوانین میں نرمی کرے۔
ٹریس مارک میں ریسرچ کی سربراہ کومل منصور نے کہا کہ ’اسحٰق ڈار کے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مثبت خبروں کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی جبکہ ستمبر میں مہنگائی کی شرح 27 کے امکان کے مقابلے میں 23.18 فیصد رہی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے مختصر سے درمیانی مدت میں 2 سے 3 ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی، لیکن یہ بات اب تک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس شاید برابری کو نیچے لانے کے لیے مارکیٹ میں ڈالنے کے لیے ذخائر موجود نہیں ہیں لیکن یہ حربے فی الحال کارگر ثابت ہو رہے ہیں، نومنتخب وزیر خزانہ جو بھی فیصلے کریں وہ شفاف ہونے چاہئیں اور ان پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر عملدرآمد کیا جانا چاہیے’۔
واضح رہے کہ پاکستانی روپیہ 22 ستمبر کو 239 روپے 94 پیسے کی اب تک کی کم ترین سطح پت جاپہنچا تھا، تاہم پچھلے 6 سیشنز میں 11 روپے 26 پیسے یا 4.7 فیصد کی بہتری کے ساتھ روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے پیش گوئی کی تھی کہ آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔
اسحٰق ڈار نے ہفتے کو پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے سے معاشی مشکلات میں اضافه ہوا، پاکستانی کرنسی کی قدر مصنوعی طور پر گری ہوئی ہے، روپے کی اصل قدر میں ہیر پھیر کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے انہوں نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا ہے روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مستقبل میں بھی امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر مضبوط ہوگی۔
اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ ’روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مصنوعی اضافے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔