اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری حکومت پانڈورا پیپرز میں مذکور ہمارے تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی اور اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو ہم مناسب کارروائی کریں گے۔
میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس سنگین ناانصافی کو موسمیاتی تبدیلی کے بحران کی طرح سمجھیں۔واضح رہے کہ ’پنڈورا پیپرز ‘ نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے ۔
700 سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آگئیں ہیں۔اِن پاکستانیوں میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے۔
اسحاق ڈار جو پہلے ہی پاکستان میں متعدد کیسز میں مطلوب ہیں اور انہیں عدالت کی جانب سے بھی متعدد بار طلب کیا گیا ہے، اب اُن کے بیٹے کی آف شور کمپنی سامنے آنے کے بعد اُن کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو گیا ہے۔ تاہم پینڈورا پیپرز میں صرف لیگی رہنما اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کئی معروف سیاسی شخصیات اور حکمرانوں کی آف شور کمپنیاں بھی سامنے آگئی ہیں۔
جن میں وزیرخزانہ شوکت ترین کی آف شور کمپنی جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی اور سینیٹر فیصل واوڈا کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں ہیں۔تحقیقات میں پنجاب کے سابق وزیر عبدالعلیم خان کی آف شور کمپنی سامنے آئی ۔پنڈورا پیپرز میں پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیرصنعت خسرو بختیارکے اہل خانہ کی آف شورکمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں سامنے آئی ہے۔
وزیراعظم کےسابق معاون خصوصی وقارمسعود کے بیٹے کی بھی آف شورکمپنی نکل آئی جبکہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں شامل ہ۔اس کے علاوہ پنڈورا پیپرزمیں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران،کچھ بینکاروں، کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کی آف شورکمپنیاں بھی سامنے آئیں ہیں۔اگر قانون کے مطابق آف شور کمپنی ڈکلیئر کی گئی ہو اور وہ کمپنی کسی غیرقانونی کام کیلئے استعمال نہ ہو تو آف شور کمپنی بنانا بذات خود کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے۔