اسلام آباد(سچ خبریں) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جعلی حلف نامہ جمع کروانے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے درج مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے لیے عمران خان کو آدھے گھنٹے میں عدالت طلب کیا تھا، ان کی آمد کے پیش نظر ہائی کورٹ اور اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے گزشتہ روز عمران خان سمیت 11 افراد کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج کیا تھا، ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے، ملزمان نجی بینک اکاؤنٹ کے بینفشری ہیں۔
فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج اس مقدمے میں گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر حفاظتی ضمانت کے لیے آج عمران خان نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایف آئی اے نے فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے، عدالت حفاظتی ضمانت منظور کرے تاکہ متعلقہ عدالت پیش ہو سکیں۔
اسسٹنٹ رجسٹرار اسد خان نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر 3 اعتراضات لگادیے جس میں سوال کیا گیا کہ خصوصی عدالت میں جانے سے پہلے ہائی کورٹ کیسے آسکتے ہیں، عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرائی اور درخواست میں ایف آئی آر کی نقل بھی غیر مصدقہ لگائی گئی ہے۔
حفاظتی ضمانت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی جس میں عمران خان کی جانب سے سلمان صفدر اور انتظار حسین پنجوتھا عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسی مقدمے میں اور بھی 2 لوگ شامل ہیں، مقدمہ میں شامل 2 لوگوں نے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، خاتون ایڈیشنل سیشن جج نے دونوں درخواست گزاروں کا کیس سننے سے معذرت کرلی تھی، ہم ٹرائل کورٹ جانا چاہتے ہیں مگر ضمانت دی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں یہ کیس کس عدالت میں جانا چاہیے؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ کیس بنکنگ کورٹ یا اسپیشل سینٹرل کورٹ کا ہے، اس کیس میں فیک اکاؤنٹس کا کوئی ذکر نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان کہاں ہیں؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہے تو ہم عدالت حاضر ہوجائیں گے، غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے عمران خان پیش نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان 3 بجے تک اس عدالت میں پیش ہوجائیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ 3 بجے دیر ہو جائے گی، ابھی آدھے گھنٹے میں آجاتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے آجائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو آدھے گھنٹے میں عدالت طلب کرتے ہوئے انتظامیہ کو عمران خان کو ہراساں کرنے سے روک دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر اعتراضات نظر انداز کردیے اور ہدایت کی کہ عدالت میں پیش ہونے تک عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
بعد ازاں عدالت کے طلب کرنے پر عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ مقدمہ تو ایف آئی اے کا ہے، کون اس کو دیکھے گا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ یہ اسپیشل عدالت ہی دیکھے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے صبح درخواست ضمانتیں دائر کی لیکن نہیں سنی گئی، اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمہ میں جو دفعہ لگی ہے وہ سیشن عدالت کی ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت پیر تک منظور کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر دائرہ اختیار کا معاملہ حل نہیں ہوا تو اس کو دیکھ لیں گے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اسی طرح کے مقدمات لاہور اور کراچی میں بھی ہیں، ضمنی انتخابات بھی ہو رہے ہیں، پیر کو حاضری سے معافی مل جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انہوں نے وہاں جانا ہے تو چلے جائیں، سلمان صفدر نے استدعا کی کہ حفاظتی ضمانت منگل تک منظور کی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کی منگل تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور انہیں 5 ہزار روپے کے مچلکے داخل کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 2 اگست 2022 کو پی ٹی آئی کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کا نجی بینک میں اکاؤنٹ تھا اور نجی بینک کے منیجر کو بھی مقدمے میں شامل کیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق نیا پاکستان کے نام پر بینک اکاؤنٹ بنایا گیا، بینک منیجر نے غیر قانونی بینک اکاؤنٹ آپریٹ کرنے کی اجازت دی، بینک اکاؤنٹ میں ابراج گروپ آف کمپنیز سے 21 لاکھ ڈالر آئے۔
مزید بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کا الیکشن کمیشن میں بیان حلفی جمع کرایا تھا، ابراج گروپ کمپنی نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ بیان حلفی جھوٹا اور جعلی ہے، ووٹن کرکٹ کلب سے 2 مزید اکاؤنٹ سے رقم وصول ہوئی، نجی بینک کے سربراہ نے مشتبہ غیر قانونی تفصیلات میں مدد کی۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے نے 7 اکتوبر کو پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ نیازی کو اسلام آباد اور لاہور سے حامد زمان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے حراست میں لیا تھا۔
ایف آئی اے لاہور نے بیان میں کہا تھا کہ فارن فنڈنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں مقدمہ درج کرکے پی ٹی آئی رہنما حامد زمان کو گرفتار کرلیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے لاہور کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج کرکے، انصاف ٹرسٹ کے ٹرسٹی حامد زمان کو وارث روڈ سے گرفتار کرلیا گیا۔
[ڈان کی رپورٹ][2] کے مطابق 10 اکتوبر کو لاہور کی مقامی عدالت نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے لیے پی ٹی آئی کے رہنما حامد زمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ایف آئی اے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا۔
یاد رہے کہ [8 اکتوبر][3] کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں سینیٹر سیف اللہ نیازی اور حامد زمان کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 2 اگست کو ای سی پی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد رواں سال 20 جون کو محفوظ کیا گیا تھا، فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔فیصلے کے اہم نکات یہ تھے
- یہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ملی۔
- پارٹی نے عارف نقوی اور 34 غیر ملکی شہریوں سے فنڈز لیے۔
- پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا۔
- عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کی۔
- پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے والے فنڈز کیوں نہ ضبط کیے جائیں۔
تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے میں چیف الیکشن کمشنر کی جانب سےکہا گیا تھا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
فیصلے میں پی ٹی آئی کو امریکا، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی تھی، اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے دانستہ طور پر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سمیت 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے، ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یوایس آئی سے بھی فنڈنگ حاصل کی، یو ایس اے ایل ایل سی سے حاصل کردہ فنڈنگ بھی ممنوعہ ثابت ہوگئی۔
فیصلے میں رومیتا سیٹھی سمیت دیگر غیر ملکی شہریوں اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو ملنے والی فنڈنگ بھی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 13 اکاؤنٹس پوشیدہ رکھے، یہ 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جن کا تحریک انصاف ریکارڈ نہ دے سکی، پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی وہ اس کی سینئر قیادت نے کھلوائے تھے۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن نے مزید کہا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلریشن جمع کروائے، چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اکاؤنٹس چھپائے، بینک اکاؤنٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے والے فنڈز الیکشن کمیشن کی جانب سے کیوں نہ ضبط کیے جائیں۔
فیصلے میں پی ٹی آئی کو ملنے والی ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا، فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوانے کی ہدایت کردی گئی۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایسے وقت میں سنایا گیا تھا جب الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم میں تیزی آگئی تھی اور برطانوی اخبار ‘فنانشل ٹائمز’ میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح برطانیہ میں ایک چیریٹی کرکٹ میچ کے ذریعے جمع ہونے والے 20 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آئے اور اس عمل میں بزنس ٹائیکون عارف نقوی کا کیا کردار رہا۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے دائر کیا گیا یہ کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا تھا، اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا، تاہم عمران خان اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے کسی بھی غیر قانونی کام کی تردید کی جاتی رہی جن کا یہ مؤقف تھا کہ مذکورہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔
مارچ 2018 میں ایک ماہ کے اندر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے بالآخر 4 سال بعد 4 جنوری کو اپنی رپورٹ جمع کروائی، اس مدت کے دوران اس حوالے سے تقریباً 95 سماعتیں ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی 8 جلدوں پر مبنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی شہریوں اور بیرون ملکی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں سے ذرائع آمدن اور دیگر تفصیلات کے بغیر لاکھوں ڈالرز اور اربوں روپے جمع کرکے فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی اور فنڈز کے اصل حجم اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کو چھپایا۔
رپورٹ میں پارٹی کی جانب سے بڑی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بتانے سے انکار اور پی ٹی آئی کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز کی تفصیلات کے حصول میں پینل کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان لگایا جو پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کروایا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان 4 سال کی مدت میں اکٹھے کیے گئے فنڈز کے اصل حجم سے 31 کروڑ 20 لاکھ روپےکم رقم ظاہر کی، سالانہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں پی ٹی آئی کے 4 ملازمین کو ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دیے جانے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے تمام جماعتوں کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کو اکٹھا کرنے اور ایک ساتھ اس کا فیصلہ سنائے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت حکمراں اتحاد فیصلہ جلد سنانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔