اسلام آباد: (سچ خبریں) سابق وزیر اطلاعات و پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم غیر منتخب آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن ان اداروں کو بھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا احترام کرنا چاہیے، بند کمروں میں بیٹھ کر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے قد اوپر نیچے کرنے کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم اداروں کے ساتھ ایک پیج پر رہنا چاہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ادارہ ہوتی ہیں جو عوام کی رائے کی نمائندہ ہوتی ہیں، جبکہ پاکستان کے غیر منتخب آئینی ادارے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ ملک بھر میں لاکھوں لوگ گھروں سے باہر نکلے اور عمران خان سے اظہار یکجہتی کیا، پچھلی بار شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی نے 100 فیصد نشستیں جیتی تھیں، اب جو حالات ہیں ان شا اللہ آپ دیکھیں گے کہ سینٹرل پنجاب میں بھی پی ٹی آئی ایک ’لینڈ سلائڈ وکٹری‘ کی جانب جارہی ہے، اگلے انتخابات میں یہاں سے احسن اقبال، خرم دستگیر اور خود شہباز شریف کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی، اسی لیے یہ لوگ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے بند کمروں میں کیے جارہے ہیں، ان کو احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کا اور لوگوں کا اربوں خرچ کروانے کے بعد 3 روز پہلے آپ کہہ دیتے ہیں کہ الیکشن نہیں ہو رہے، اداروں کو ذمہ دارانہ فیصلے کرنے چاہئیں، سیلاب تو 3 ماہ سے موجود ہے لیکن یہ چیز آپ کو پہلے نہیں نظر آئی۔
انہوں نے کہا کہ غریب قوم پر ایسے غیر ذمہ دار لوگ بٹھا دیے گئے ہیں جنہوں نے اس ملک کا حشرنشر کردیا ہے، الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے خلاف انتظامی تعصب تو ہے ہی لیکن ایک انتظامی بحران بھی موجود ہے جو کہ چیف الیکشن کمشنر اور اس کی ٹیم کی نالائقی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس دن حمزہ شہباز نے حلف اٹھایا اس دن شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد ہونی تھی لیکن وہ فرد جرم 9 مہینے سے نہیں لگ رہی، اس منی لانڈرنگ کیس کا 24 ارب روپیہ پاکستان کے عوام کا پیسہ جس پر ہمارے عدالتی نظام کی سنجیدگی سب کے سامنے ہے، کوئی بات کریں تو کہتے ہیں توہین ہوگئی، اسی لیے پاکستان کے نظام انصاف پر سوالیہ نشان برقرار ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ملک میں فوج اور عدلیہ سمیت سب ادارے ضروری ہیں، ان کے بغیر ملک نہیں چلتے، ہم ان اداروں کے ساتھ ایک پیج پر رہنا چاہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں بھی ادارہ ہوتی ہیں جو عوام کی رائے کی نمائندہ ہوتی ہیں جبکہ پاکستان کے غیر منتخب آئینی ادارے لوگوں کی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم غیرمنتخب آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن ان اداروں کو سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور بند کمروں میں بیٹھ کر سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے قد اوپر نیچے کرنے کی سوچ نہیں ہونی چاہیے، اس سے توازن بگڑ جاتا ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں ادارہ جاتی توازن برقرار رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ حتمی فیصلے بند کمروں میں نہیں ہونے چاہئیں، وہ پاکستان کے عوام کو کرنے دینا چاہئیں، بند کمرے میں ہونے والے فیصلوں کی کوئی عمر یا معیار نہیں ہوتا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف سے معاہدے نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے، جبکہ یہ ملک جب ان کے حوالے کیا گیا تھا اس وقت یہ 6 فیصد پر ترقی کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ حالات ہیں کہ خبروں کی سنسرشپ کی جارہی ہے اور صحافیوں پر تشدد اور گرفتار کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج عمران خان سیلاب زدگان کے لیے دوسری بڑی ٹیلی تھون کرنے جارہے ہیں، گزشتہ ٹیلی تھون میں عمران خان کو 5 ارب روپے ملے، ان میں سے 3 ارب روپے جمع ہوچکا ہے، ایک ارب روپیہ سندھ میں بھیجا جائے گا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ دوسری ٹیلی تھون میں بھی اوورسیز پاکستانی دل کھول کر عطیات دیں گے، موجودہ حکومت اس کا عشر عشیر بھی جمع نہیں کر سکتی، ان کو کوئی پیسہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب نے پنجاب اور خیبر پختوخوا کو بھی متاثر کیا تھا لیکن وہاں صوبائی حکومتوں نے احسن انداز میں اس سے نمٹا، اس لیے وہاں ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں مل رہے جو ہمیں سندھ یا بلوچستان میں نظر آرہے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آج ہم نے اپنے تمام ضلعی صدور کو آگاہ کردیا ہے کہ تیاری کرلیں کیونکہ اگلے ہفتے سے ہم مہنگائی کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک کا آغاز کرنے جارہے ہیں، مجھے پوری امید ہے کہ یہ ایک بڑی تحریک بنے گی جسے ہم سیاسی تحریک میں تبدیل کریں گے۔
نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ نواز شریف واپس آئیں گے کیونکہ وہ عدالتوں سے بچ کر آنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت نواز شریف کو واپس سیاست میں اہل کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اداروں کے خلاف نہیں ہیں، ہماری مہم صرف یہ ہے کہ عوام اور سیاسی جماعتوں کو بھی وہی عزت دی جائے جو اداروں کو دیتے ہیں، فیصلے عوام کے مانے جانے چاہئیں اور اداروں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے جس کے لیے عوام کے فیصلے ماننا ضروری ہیں۔