اسلام آباد: (سچ خبریں) 8 فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف امریکا میں آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر کے باہر تحریک انصاف کے احتجاج کے ایک روز بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ مبینہ طور پر چرانے والے حکام کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت کے بعد صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر احتجاج کی حمایت کی لیکن مظاہرین کی جانب سے لگائے گئے فوج مخالف نعروں سے اظہارِ لاتعلقی کیا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے انتخابات میں 3 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ باقی 17 سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر اتنے ووٹ حاصل کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بےضابطگیوں کا معاملہ آئی ایم ایف کے سامنے اٹھایا ہے، کئی غیرسرکاری تنظیموں نے بھی انتخابی عمل میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پہلے پی ٹی آئی کو ایک سازش کے تحت ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اور پھر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستیں بھی چھین لی گئیں، مینڈیٹ کی چوری غداری کے مترادف ہے، جس پر آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے فیصلےکو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو الاٹ نہیں کر سکتا۔
بانی پی ٹی آئی نے آئندہ چند روز میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کو ’فکسڈ میچ‘ قرار دیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ محسن نقوی کو وزیر داخلہ بنانا بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا صلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 8 فروری کا الیکشن ایک فکسڈ میچ تھا جس میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت ساتھ ملے ہوئے تھے۔
عمران خان کے مطابق الیکشن کمیشن، چند سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ لانے کے منصوبے کو سبوتاژ کیا۔
حکومت کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مفاہمت کا انحصار انتخابی نتائج کے منصفانہ آڈٹ پر ہے۔
تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں سائفر کیس اور توشہ خانہ کیسز میں ضمانت دے بھی دی تو القادر ٹرسٹ کیس میں انہیں سزا دی جاسکتی ہے۔
معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کمزور معیشت کی وجہ سے موجودہ حکومت پائیدار نہیں رہے گی، انہوں نے اس الزام کو مسترد کیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
سابق وزیر اعظم کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے 2018 میں 20 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑا تھا، اس لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس اسٹرکچرل اصلاحات کرنے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے، حکومت کو مشورہ ہے کہ اگر قرض ادا کر سکتے ہیں تو ہی قرض لیں۔
پارٹی رہنما و وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ فوٹو سیشن نہیں کرنا چاہیے تھا، خدشہ ہے کہ وفاق خیبرپختونخوا کو فنڈز میں اس کا حصہ نہیں دے گا۔
قبل ازیں القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے استغاثہ کے ایک گواہ پر جرح مکمل کی، جو القادر یونیورسٹی کا چیف فنانشل آفیسر تھا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے استغاثہ کے ایک اور گواہ کا بیان بھی قلمبند کیا۔
سماعت کے دوران عمران خان، بشریٰ بی بی، ان کی بیٹی اور داماد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، کیس کی سماعت 20 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔