پشاور: (سچ خبریں) پشاورہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر خیبرپختونخوا کی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو حلف اٹھانے سے روک دیا ہے۔
میڈیا کے مطابق سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے حکم امتناع پر محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کل تک ممبران سے حلف نہ لینے کا حکم امتناع بھی جاری کردیا ہے، ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پری ایڈمیشن نوٹسز بھی جاری کردیے اور الیکشن کمیشن کو کل تک جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
عدالتی حکم میں سوال کیا گیا ہے کہ کیا اس عدالت کے پاس فیصلہ معطل کرنے کا اختیار ہے؟ کیا مخصوص نشستوں کے لیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے؟ ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کیس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔
یاد رہے کہ آج ہی پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے ان کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم پر حکم امتناع جاری کرنے کی دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس شکیل احمد نے کی، درخواست میں الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا، درخواست گزار نے اپیل میں استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر مخصوص نشستیں دی جائے۔
سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل قاضی انور نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابی نشان لینے کے باعث پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، خیبرپختونخوا میں 21 مخصوص خواتین اور 4 اقلیتی نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ یہ رٹ صوبائی اسمبلی کی حد تک ہے یا قومی اسمبلی کی بھی شامل ہے؟جس پر وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یکساں فیصلہ دیا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وکیل قاضی انور نے بتایا کہ ہماری حصے کی مخصوص سیٹیں آئینی و قانونی طور پر تقسیم نہیں کی جاسکتی، پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم نہیں کی جاسکتی ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے دریافت کیا کہ یہ سیٹیں تو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص ہوتی ہیں، اگر آپ کو نہیں ملتی تو پھر کیا یہ خالی رہیں گی؟
جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ کہتا ہے کہ الیکشن سے پہلے لسٹ دی جائے گی۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے قاضی انور نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جن کو سیٹیں دی گئی ہیں وہ حلف نہ لیں۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو حلف سے روکا جائے؟ ہم اس کو دیکھتے ہیں پھر کوئی آرڈ کریں گے۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے قاضی انور کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سےحکم امتناع پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف کیس پر پشاور ہائی کورٹ نے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکمنانہ جاری کردیا۔
حکم نامے کے مطابق وکلا نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کو غیر قانونی طور پر الاٹ کیا گیا، معاملے پر الیکشن کمیشن کو پری ایڈمیشن نوٹس جاری کیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ نے حکمنامہ میں چھ سوالات اٹھائے ہیں، پہلا یہ کہ کیا پشاور ہائیکورٹ کے پاس معاملے کا اختیار ہے؟ کیا درخواست گزار کے پاس اس پیٹیشن کا اختیار ہے؟ آئین اور الیکشن ایکٹ کے مطابق کیا درخواست گزار کے پاس مخصوص نشستوں کے لیے کیس کا حق ہے؟ کیا مخصوص نشستیں خالی رکھی جاسکتی ہیں یا باقی جماعتوں میں تقسیم ہوسکتی ہے؟
حکم نامے میں کہاگیا کہ مخصوص نشستوں کی فہرست نہ جمع کرنے پر پھر مدعی ہوسکتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن آئین اور الیکشن ایکٹ کی غلط تشریح تو نہیں کی؟
مزید بتایا گیا کہ ان سوالات پر لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کیس چیف جسٹس کو بھیجتے ہیں، عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔
حکم نامے میں مزید بتایا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کل تک نو منتخب ممبران سے حلف نہیں لیں گے۔