اسلام آباد: (سچ خبریں) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بحریہ ٹاون کے ساتھ ریونیو کوآپریٹو سوسائٹی (آر ای سی ایچ ایس) کے انضمام سے متعلق کیس کو براہ راست چلانے کی ہدایت جاری کردی۔
میڈیا کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ بہت طاقتور ہیں، انہوں نے سب خریدا ہوا ہے، میڈیا پر بھی ان کے خلاف خبر نہیں چلتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک معاملے میں 3 مرکزی کردار ہیں، سابق آرمی چیف پرویز مشرف ، سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی ،بحریہ ٹاؤن اور زاہد رفیق کیس کے مرکزی کردار ہیں، یہ ہیں پاکستان کے اصل مالک۔
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو فروخت کی، ڈی ایچ اے نے اس زمین پر عسکری 14 بنا دیا، کیا یہ بات درست ہے؟
اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ڈی ایچ اے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ وکیل ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی، ڈی ایچ اے شہدا کے ورثا اور جنگ زخمی میں ہونے والوں کو پلاٹس دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ شہدا کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں، شہدا کا نام استعمال کر کے، ان کے نام پر پیسہ بنا رہے ہیں ، آپ ان کی عزت نہ کریں، ہم شہدا کی عزت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کتنا رس نکالیں گے شہدا کے نام کا؟ یہ کھیل ہم نے بہت بار دیکھا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا؟ کیا یہ وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسا نہیں کیا جیسے وزیر اعلیٰ کر رہے ہیں۔
بعد ازاں بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے وکیل نے مقدمہ لائیو چلانے پر اعتراضات اٹھادیے، بحریہ ٹاؤن کے وکیل حسن رضا پاشا نے استدعا کی کہ عدالت پہلے ہمیں سن لے۔
اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ڈی ایچ اے ہاؤسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنائی گئی تھی تا کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے ہے؟
وکیل ڈی ایچ اے نے بتایا کہ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔
جسٹس عرفان سعادت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ یہ زمین عسکری 14 پلاٹ بنا کر بیچ دی گئی؟
اس موقع چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پیسے کمانے ہیں تو کمائیں لیکن شہیدوں کے نام مت لیں، یہ سیدھا سادا دھندہ کررہے ہیں، شہدا کے نام لے کر تذلیل مت کریں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی کون ہوتا ہے ایسا معاہدہ کروانے والا؟ یہ ڈیل خفیہ کیوں ہوئی؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ یہ ڈیل سیکرٹ نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر مجھے اس کی کوئی اخباری خبر دکھا دیں، مجھے لوگوں کا دکھ نہیں ،پیسے کا دکھ ہے، جوڈیشل کونسل میں ایک مقدمہ چلا کر ہم نے سب کے کردار دیکھ لیے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کا تو پوچھیں ہی مت وہ تو پاکستان چلا رہے ہیں ، ریاست بھی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑی ہے، اس کو دھندہ نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں ؟
قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ جب یہ معاہدہ ہوا اس وقت آرمی چیف کون تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت پرویز مشرف آرمی چیف تھے، اس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ ہیں ہمارے سپہ سالار ،اور تب وزیر اعلیٰ کون تھے؟ وکیل نے مزید کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے، قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے اصل مالک ہی یہ لوگ ہیں۔
اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کی منظوریاں بورڈ سے لی جاتی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن ہم اوپر تک جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کو لائیو چلائیں گے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے پاکستان کیسے لوٹا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے مقدمے کو لائیو چلانے کی ہدایت جاری کردی۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں زرعی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے؟ آپ کو فہرست بتائیں کہ آپ نے کتنے قوانین کی خلاف ورزی کی؟ یہ فہرست ختم نہیں ہو گی، زرعی زمین ریاست اور عوام پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کو کھلائیں گے کہاں سے؟ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن کو دیکھیں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا؟ کیا یہ قانون سے بالاتر ہیں؟
قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ ایک محاورہ چلتا ہے پہیے لگانے والا آج اس کی عکاسی نظر آرہی ہے، اس معاملے میں تو شاید جیٹ انجن لگایا گیا ہے، آپ کیوں پاکستان کو تباہ کر رہے ہیں، لوگ کھائیں گے کیا؟ نہ پاکستان میں گیہوں رہے گا نہ چاول ، آج کا اخبار دیکھیں، پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے، یہ اعتراف بھی کرلیتا ہوں ہمارے ادارے کی شہرت بھی اچھی نہیں، ہم تو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ تو وہ بھی نہیں کررہے،
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ڈی ایچ اے کا سرکاری آڈٹ ہوتا ہے؟ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ نہیں سر ہمارا اپنا آڈٹ ہوتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے، مشرف صاحب اس وقت صدر تھے ایک اور قانون جاری کروا لیتے۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ فریقین کو آپس میں میٹنگ کر کے متاثرین کا ازالہ کرنے کی راہ نکالنے کا وقت دے دیا گیا تھا، کہیں سفر کریں ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں، زرعی زمین شاید اتنا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی اس لیے لوگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں، مگر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زرعی زمین بچائے، سوسائٹی میں صرف سرمایہ کاری ہوتی ہے زمین پڑی رہتی ہے، جن کو حقیقت میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے ان کی پہنچ سے ہی یہ زمین باہر ہو جاتی ہے، پاکستان گندم برآمد کرتا تھا اب درآمد کرتا ہے، اس کے دریا تک آلودہ کیے جا چکے ہیں۔
بعد ازاں زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے کیس کا حکمنامہ بھی لکھوا دیا، حکم نامے کے مطابق بحریہ ٹاون میں کوآپریٹو سوسائٹی کے انضمام کا معاہدہ نافہم دکھائی دیا ، بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا وہ متاثرین کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔