اسلام آباد: (سچ خبریں) آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی۔
عدالت نے آج کی سماعت کا تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر کیس کی کوئی کارروائی نشر نہیں ہوگی، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو اس حوالے سے حکم پر پابندی کی ہدایت کی جاتی ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر کوئی بھی خلاف ورزی ہوئی تو اس پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی، پیمرا اور پی ٹی اے کو عدالتی حکم کی کاپی فراہم کی جائے تاکہ آئندہ خلاف ورزی نہ ہو۔
عدالت نے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل ان کیمرا کرنے کی پراسیکیوشن کی درخواست منظور کی جاتی ہے، سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی ٹرائل میں مشروط طور پر موجود ہوگی۔
عدالت کا تحریری حکم میں کہنا تھا کہ شرط ہوگی کہ عدالتی کارروائی کو خاندان کے اراکین کسی جگہ بیان نہیں کریں گے، ٹرائل کی کارروائی کے دوران پبلک موجود نہیں ہوگی۔
قبل ازیں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر رضوان عباسی کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ سیکشن 14 کے تحت ٹرائل خفیہ رکھنے کی درخواست پر اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوئے، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنیں بھی کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔
دورانِ سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے رضوان عباسی نے کہا کہ سیکشن 14 اے کے تحت سماعت اِن کیمرا ہونی چاہیے، مقدمہ ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے، اسی وجہ سے اِن کیمرا سماعت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکشن 14 اے کے مطابق حالات و واقعات کے تناظر میں خفیہ ٹرائل کا کہا گیا ہے، موجودہ کیس کے حالات و واقعات بھی تقاضا کرتے ہیں کہ جیل ٹرائل اِن کیمرا ہو، جب سائفر ہی سیکرٹ تھا تو سماعت بھی اِن کیمرا ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چارج فریم ہو چکا ہے، اب شہادتیں ریکارڈ ہونی ہیں، چاہتے ہیں کہ شہادتیں ریکارڈ کرتے وقت رازداری کو ملحوظ رکھا جائے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی ان کیمرا سماعت اور جیل سماعت کا نوٹیفیکیشن ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹی فیکیشن کالعدم قرار دے کر اوپن ٹرائل کا حکم دیا تھا، ہمیں علم نہیں تھا کہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، ہمیں بعد میں میڈیا سے علم ہوا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ سماعت کے دوران کدھر تھے کہ آپ کو پتا نہیں چلا؟ سب کے سامنے چارج فریم ہوا تھا۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک نے کہا کہ عدالت سائفر کیس ٹرائل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق نظر انداز نہیں کر سکتی۔
عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعدازاں جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس کے اِن کیمرا ٹرائل کی درخواست منظور کرلی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس کی آئندہ سماعت اِن کیمرا ہوگی، فیملی اراکین کو دوران سماعت کمرہ عدالت میں رسائی دی جائے گی، بعدازاں عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 13 دسمبر کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف دوبارہ فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے راجا رضوان عباسی نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فرد جرم عائد ہوچکی ہے، آج گواہان کو پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسپیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سماعت ان کیمرہ کرنے کی درخواست دی ہے، سیکشن 14 اے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درخواست دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہے، اگر یہ معاملہ سیکرٹ ہی نہ ہوتا تو ایف آئی آر ہی نہ ہوتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو معاملہ سیکرٹ ہو اس کو کیسے پبلک کیا جاسکتا ہے، چارج فریم ہوچکا ملزمان سائن کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔