اسلام آباد: (سچ خبریں) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی زیادہ ہے، یہاں تو ایک تاریخ پر نوٹس اور اگلی تاریخ پر دلائل ہوجانے چاہئیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے زمین تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
وکیل نے آئندہ کی تاریخ دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اپنے ذہن سے یہ تصور نکال دیں کہ سپریم کورٹ میں جا کر تاریخ لے لیں گے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کے توسط سے سب کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی زیادہ ہے، یہاں تو ایک تاریخ پر نوٹس اور اگلی تاریخ پر دلائل ہوجانے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ دیگر عدالتوں میں یہ ہوتا ہے کہ کسی دستاویز کو پیش کرنے کے لیے تاریخ مل جاتی ہے، سپریم کورٹ میں کوئی کیس آتا ہے تو اس کے سارے کاغذات پورے ہونے چاہئیں۔
انہوں نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دلائل بھی ایک زبان میں دیں، اپنی اردو بہترکریں یا انگریزی، دریں اثنا عدالت نے وکیل کی تاریخ دینے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ نے ایک آنکھ سے معذور سرکاری افسر کی تعیناتی کے خلاف درخواست گزار کی استدعا مسترد کردی، جسٹس اعجاز الاحسن نے معذور افسر کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ محمد ساجد ایک آنکھ سے معذور ہیں اور سب واضح ہے، جب تعیناتی میرٹ پر کی گئی ہے تو مسئلہ کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل بولے بیان حلفی کے مطابق متاثرہ فریق کو کوئی معذوری نہیں ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی میں بھی تکنیکی غلطی ہو سکتی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق انٹرویو بورڈ نے معائنہ کرکے تقرری میرٹ پر کی ہے، معذور افراد کے کوٹے پر اُن کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے، 2 اداروں نے انہیں معذور قرار دیا ہے، دریں اثنا عدالت نے تعیناتی کے خلاف درخواست گزار کی استدعا مسترد کر دی۔
سپریم کورٹ نے شہری کی تنخواہ ہڑپ کرنے والے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
محکمہ تعلیم کے 2 ملازمین نے اینٹی کرپشن پنجاب میں درج مقدمہ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی، ملزم عبدالرحمٰن کی ضمانت عدم پیروی پر خارج جبکہ ملزم ابرار کی ضمانت وکلا کے دلائل کے بعد خارج کی گئی۔
عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ ملزم نائب قاصد ابرار نے شہری کو چوکیدار کی نوکری پر سرکاری اسکول میں ملازمت دلوائی، ایک سال تک شہری کی سیلری اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی، سیلری مانگنے پر نائب قاصد ابرار کہتا رہا ابھی آپ کا اکاؤنٹ کھلنا ہے۔
ملزمان نے شہری کو سیلری دلوانے کے بدلے مزید 70 ہزار روپے کی بھی ڈیمانڈ کی، چوکیدار نے بیوی کا زیور بیچ کر ایک لاکھ بھی ملزمان کو دے دیے۔
عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ افسوس کے ساتھ محکمہ تعلیم پنجاب کا یہ حال ہے، ایک تو غریب آدمی کے ساتھ زیادتی ہوئی اوپر سے تنخواہ ہڑپ کرلی گئی اور مزید پیسے لے لیے گئے۔