اسلام آباد: (سچ خبریں) پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے خود پر زیر حراست ہونے والے تشدد کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کرنے والے میری جان نکال لیتے تو پروا نہیں تھی لیکن میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا، چیف جسٹس مستقبل میں اس طرح کی بد سلوکی سے شہریوں کو بچانے کے لیے اس واقعے کی تحقیقات کریں۔
گزشتہ ماہ کے شروع میں مسلح افواج کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر درج کیے گئے مقدمے میں گرفتار کیے گئے اعظم سواتی نے یہ مطالبہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
اپنی گرفتاری کے بعد سے ہی اعظم سواتی الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہیں برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہوں اپنے ساتھ ہونے والی بد سلوکی کے پیچھے 2 فوجی اہلکاروں کو قرار دیا اور ان کے نام لیے، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں اعظم سواتی کے ان پر ہونے والے تشدد کی مذمت کی تھی، سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔
آج پریس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی نے ایف آئی اے کے ایک افسر کا نام بھی لیا۔
انہوں نے آئین پاکستان کو ہاتھ میں اٹھا کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں موجود قوانین کا ایک ہزار یا چند سو لوگوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ میجر جنرل فیصل اور سیکٹر کمانڈر فہیم پر بھی لاگو نہیں ہوتا جو قانون سے ماورا اور بالاتر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایاز کو جی ایچ کیو میں طلب کریں، ان سے پوچھیں، وہ میرے ساتھ ہوئی زیادتی کی تفصیلات 5 منٹ میں بتائیں گے کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ مجھے حراست میں لیے جانے کے وقت وہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا۔
انہوں نے کہا کہ حراست میں لیے جانے کے بعد پورے راستے وہ مجھے مارتے رہے اور میری ویڈیو بناتے رہے، انہوں نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون شخص تھا جو مجھے برہنہ کیے جانے کے وقت مزاق اٹھا رہے تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر تشدد کرنے والے اگر میری جان نکال لیتے تو مجھے پرواہ نہیں تھی لیکن میری عزت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، میں اس کے خلاف تمام عالمی فورمز کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، اگر ملک میں ایک سینیٹر محفوظ نہیں ہے تو کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان پر تشدد ان کی عزت اور ان کے خاندان کی عزت پر حملہ ہے، انہوں نے کلمہ پڑھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے الفاظ سچ پر مبنی ہیں، مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے کپڑے اتارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ 74 سالہ سینیٹر آپ کے لیے باعث شرم نہیں بن رہا، میں زندہ لاش ہوں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے لڑ رہا ہوں، میں سیاست نہیں کر رہا، میں چاہتا ہوں کہ میری اور میرے خاندان کی اس قربانی کی وجہ سے مستقبل میں کسی شہری، پروفیسر اور کسی جنرل کے کپڑے نہ اتریں۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی درخواست کی کہ وہ ان کے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرے اور ان کے دعوؤں کی سچائی کا تعین کرنے کے لیے فرانزک آڈٹ کا حکم دے۔
آرمی چیف کا نام لیتے ہوئے اعظم سواتی نے کہا کہ میں ارشد شریف کی طرح شہید نہیں ہوا، میں زندہ ہوں، جنرل قمر باجوہ براہ مہربانی اپنے ادارے کے لوگوں کو میرے پاس بھیجیں تاکہ اس بات کا پتلا چلایا جائے کہ ایک سینیٹر کے ساتھ ایسا وحشیانہ کھیل کس نے کھیلا۔
اپنی پریس کانفرنس کے دوران اعظم سواتی نے اپنے کیس کو سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو بھیجنے پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ مقدمہ انسانی حقوق سے متعلق ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس اور ملک کے دیگر ججوں سے اپیل کی کہ وہ انصاف فراہم کریں اور اس طرح کے ماورائے عدالت سلوک کو دوبارہ ہونے سے روکیں۔
اعظم سواتی نے کہا کہ ان کا واحد جرم ایک طاقتور شخص کے بارے میں ٹوئٹ کرنا تھا، میں ایک سینیٹر ہوں اور میں پاکستان کے سپریم کمانڈر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کریں، اگر یہ جرم تھا تو عدالتی کارروائی کی جائے۔
اعظم سواتی نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اس کیس میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔