اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہا کہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق جلد از جلد ہونے چاہئیں۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت نے حلقہ بندیوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑا ہے، مردم شماری کی منظوری کی 2 وجوہات تھیں، 2017 کی مردم شماری پر اکثر جماعتوں کو تحفظات تھے اور ایک معاہدہ ہوا تھا کہ آئندہ مردم شماری ڈیجیٹل ہوگی۔
قبل ازیں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے جاتے جاتے ایک اور بم بلوچستان پر گرادیا اور صوبے کی آبادی 64 لاکھ کم کردی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کا بہت شکریہ جس سے ہماری 7، 8 سیٹیں بڑھنا برداشت نہ ہوا، یہ معاملہ بہت تکلیف دہ ہے، اس سے بلوچستان میں کوئی اچھا پیغام نہیں گیا، وہاں پہلے ہی بہت مسئلے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم وہاں کے لوگوں کو پارلیمنٹ کی طرف لانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ 16 سیٹوں کی جمہوریت منظور نہیں، 64 لاکھ آبادی کم کرکے سیٹیں کم کی ہیں، دریں اثنا سینیٹر کامران مرتضی نے ایوان سے ٹوکن واک آؤٹ کردیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ہونے والے اجلاس میں مولانا اسد محمود موجود تھے، مردم شماری والی ٹیم نے 2 گھنٹے بریفنگ دی تھی جس کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا آبادی میں اضافے کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ہی ریکارڈ کی گئی ہے جوکہ 3.20 فیصد ہے، بلوچستان کی آبادی بڑھی اور باضابطہ نتائج کے مطابق صوبے کی آبادی ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور جے یوآئی (ف) کے مولانا اسد محمود بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ مردم شماری کی تمام تفصیلات صوبوں کو بھجوا دی گئی ہیں، پورا ریکارڈ دیکھ کر مردم شماری ہوئی ہے، ڈیجیٹل مردم شماری کا فیصلہ گزشتہ حکومت کرکے گئی ہے، یہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی گئی جس پر قوم کا 34 ارب روپے خرچ ہوا ہے۔
سینیٹ اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا، سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے حکومت پر سخت تنقید کی، اس دوران سینیٹ میں عمران خان زندہ آباد کے نعرے بھی لگائے گئے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اس ایوان کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے، کل کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں، بعدازاں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کرلیا۔
سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی سی آئی کے فیصلے کے بعد انتخابات 4، 5 ماہ آگے چلے جائیں گے، انتخابات آگے گئے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سی سی آئی کا اجلاس کیسے ہوا میں اس میں نہیں جانا چاہتا لیکن انتخابات 60 یا 90 روز میں ہونے تھے وہ اب شاید ملتوی ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل آئین کی خلاف ورزی ہوگی، الیکشن کمیشن کو فوری طور پر سامنے آکر واضح کرنا چاہیے کہ حلقہ بندیوں میں کتنا ٹائم لگے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حلقہ بندیوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑا ہے، مردم شماری کی منظوری کی 2 وجوہات تھیں، 2017 کی مردم شماری پر اکثر جماعتوں کو تحفظات تھے اور ایک معاہدہ ہوا تھا کہ آئندہ مردم شماری ڈیجیٹل ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو باضابطہ طور پر ایک بیان دینا چاہیے کہ وہ کس طرح یہ اقدامات اٹھائیں گے، حکومت میں شامل تمام جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق جلد از جلد ہونے چاہیے۔
عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بڑے سادے سے کیس میں سزا ہوئی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ سے تحائف الیکشن کمیشن سے چھپائے ہوئے تھے اور جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا کہ یہ تفصیلات درست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی 37 مرتبہ غیرحاضر رہے، اُن کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہے، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو تو عدت عظمیٰ نے گھر بھیجا تھا، ان کے پاس تو اپیل کا حق بھی نہیں تھا۔
سینیٹر مشتاق نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس تیزی سے اندھا دھند قانون سازی کررہے ہیں اس میں بل کمیٹیوں تک جانے کی نوبت ہی نہیں آتی اور نہ ہی ہمیں غور یا ترامیم کا موقع ملتا ہے۔