اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے اومی کرون کے پھیلاؤ کے پیش نظر عوام کو خبردار کر دیا ہے۔ نیشنل کمانڈ ایںڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے مائیکروبلاگنگ ویبس ائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اومی کرون کےآتے ہی ویکسی نیشن کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے، اب تک8 کروڑ75 لاکھ پاکستانی کم ازکم ایک خوراک لے چکےہیں اور 6 کروڑافرادکومکمل طورپرویکسین لگائی جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے نئے ویرئینٹ اومی کرون کے دو کیسز سامنے آ چکے ہیں ، دونوں کیسز کراچی میں رپورٹ ہوئے ، کراچی کی 65 سالہ خاتون اور پینتیس سالہ شخص میں اومی کرون کی تصدیق ہوئی۔
خیال رہے کہ 9 دسمبر کو پاکستان میں اومیکرون کا پہلا مشتبہ کیس رپورٹ ہوا تھا جس کی 13 دسمبر کو قومی ادارہ صحت نے تصدیق کردی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق اومی کرون پر ویکسین بے اثر، صرف بوسٹر شاٹس ہی اومی کرون سے بچا سکتے ہیں جن افراد نے فائزر ویکسین کی دونوں خوراکیں لیں وہ اومیکرون سے متاثر ہونے کے باجود ستر فی صد ہسپتال میں داخل ہونے سے بچے رہے۔ عالمی وبا کورونا وائرس کا نئے ویرئینٹ اومیکرون تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہاہے جس نے دنیا بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔
اومی کرون کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہے لیکن اس پر کسی بھی ویکسین کے دوشاٹس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ صرف بوسٹر شاٹ ہی اومیکرون سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق جن افراد نے فائزر ویکسین کی دونوں خوراکیں لیں وہ اومیکرون سے متاثر ہونے کے باجود 70 فی صد اسپتال میں داخل ہونے سے بچے رہے۔ اس کے علاوہ عالمی وبا کورونا وائرس کی گذشتہ لہروں کے مقابلے میں اومیکرون کیسز کی شدت کم ہے ، مطالعے کے مطابق جنوبی افریقا میں اومیکرون لہر کے ابتدائی مرحلے کے دوران شدید بیماری کی شرح میں اضافہ کم رہا۔
مطالعہ نے یہ بھی ظاہرکیا کہ جنوبی افریقہ میں اومیکرون کی لہرکے ابتدائی مرحلے کے دوران شدید بیماری کی شرحیں پچھلے اضافے کی اسی مدت کے مقابلے میں کم تھیں۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اسے کورونا وائرس کی سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ کورونا وائرس کی یہ نئی قسم صرف 15 سیکنڈ میں منتقل ہو جاتی ہے۔اومی کرون دنیا بھر کے 50 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اومی کرون سے بچنے کے لیے کئی ممالک سفری پابندیوں پر بھی غور و خوض کر رہے ہیں۔