اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (ون)(ایف) کی تشریح سے متعلق مقدمات میں اپنے سابقہ فیصلوں کے برعکس مؤقف اختیار کرتے ہوئے ریٹرننگ افسران (آر اوز) کو ہدایت دی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی معمولی بھول کی بنا پر مسترد نہ کریں۔ آرٹیکل 62 (ون)(ایف) اثاثے ظاہر نہ کرنے کی صورت میں ارکان اسمبلی پر تاحیات پابندی عائد کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت ایک ریٹرننگ افسر کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل 2 اقدامات لازمی اٹھانا ہوں گے، پہلے مرحلے میں اسے اعتراض کی نوعیت کا تعین کرنا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے لکھے گئے فیصلے میں وضاحت کی کہ اگر اعتراض ناکافی ہے تو ریٹرننگ افسر کاغذات نامزدگی مسترد نہ کرنے کا پابند ہے۔
اگر اعتراض قوی نوعیت کا ہے تو معاملہ دوسرے مرحلے میں چلا جاتا ہے جس میں ریٹرننگ افسر کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر فوری طور پر اس اعتراض کا ازالہ ممکن ہے تو اسے اپنی صوابدید کے مطابق اس اعتراض کو مسترد کرنا چاہیے یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اگر ریٹرننگ افسر امیدوار کے حق میں اپنی صوابدید کا استعمال کرتا ہے اور اعتراض کو فوری طور پر دور کیا جاتا ہے تو کاغذات نامزدگی قبول کیے جائیں گے لیکن اگر ریٹرننگ افسر اپنی صوابدید استعمال کرنے سے انکار کرتا ہے تو یقیناً کاغذات نامزدگی مسترد کیے جائیں گے‘۔
فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ دونوں صورتوں میں ریٹرننگ افسر کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق فیصلے کی مناسب وجوہات بھی ریکارڈ پر لائے۔
یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے حیدرآباد سرکٹ کے 20 جولائی کے فیصلے کے خلاف یاسر آفتاب کی جانب سے دائر اپیل پر سنایا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت سندھ میں جاری بلدیاتی انتخابات کے دوران تنازع کے تناظر میں دائر کی گئی اپیل پر سماعت کی۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی کوئی شق آئین کے آرٹیکل 62 (ون)(ایف)کے مساوی نہیں ہے جس میں کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنے والے ارکان کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے۔
یاسر آفتاب نے جرکی یونین کونسل سندھ میں کونسلر کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، ان کے مدمقابل عرفان گل نے اس بنیاد پر کاغذات مسترد کرنے کی درخواست کی کہ اپیل کنندہ نے اپنے اور اپنی شریک حیات کے اثاثوں اور جائیدادوں کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا تھا، ریٹرننگ افسر کی جانب سے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے۔
مدمقابل مدعا علیہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تشکیل کردہ اپیلیٹ اتھارٹی میں اپیل دائر کی تاہم اسے دوبارہ خارج کر دیا گیا، نتیجتاً مدعا علیہ نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی جوکہ منظور کر لی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ قانونی نکات اور تقاضوں کے بارے میں بلدیاتی انتخابات کے امیدواروں کی آگاہی اتنی گہری نہیں ہو سکتی جتنی کہ قومی اور صوبائی سطح پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’بلدیاتی ادارے نچلی سطح پر کام کرتے ہیں اور اس طرح کے عہدوں کے امیدواروں کا قانونی پیچیدگیوں سے ناواقفیت کا امکان موجود رہتا ہے، اس طرح کے امیدواروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور انکار یا حوصلہ شکنی نہیں کی جانی چاہیے‘۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’یہ یاد رکھا جائے کہ بلدیاتی اداروں کو اعلیٰ سرکاری عہدوں کی نرسری سمجھا جاتا ہے، اس طرح کی نرسریوں کو انتخابی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت کے ساتھ پنپنے کی اجازت ہونی چاہیے، لہٰذا قوی نوعیت کا اعتراض بھی دراصل تکنیکی نوعیت کا ہو سکتا ہے‘۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’آر او ہر کیس کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا، اگر اس اعتراض کو فوری طور پر دور کیا جا سکتا ہے تو آر او امیدوار کو انتخابی عمل میں آگے بڑھنے کی اجازت دے سکتا ہے‘۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس اپیل کو قبول کر لیا اور کیس کو اس ہدایت کے ساتھ دوبارہ قبل سماعت قرار دیا کہ یہ مسئلہ جاری انتخابی عمل سے متعلق ہے اس لیے سندھ ہوئی کورٹ میں اسے ایک ماہ کے اندر نمٹایا جائے۔