سچ خبریں: اسرائیلی حکومت، جو یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے حزب اللہ کے عسکری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، جلد ہی جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی کرنے پر مجبور ہو گئی، لیکن اسے سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یکم اکتوبر 2024 کو اسرائیلی حکومت نے جنوبی لبنان پر چار اطراف سے زمینی حملہ شروع کیا۔ ابتدا میں اسرائیلی حکام کا دعویٰ تھا کہ حملہ محدود ہو گا اور صرف حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا جائے گا، لیکن وقت کے ساتھ اسرائیلی حکام کے بیانات اور اقدامات میں تضاد نمایاں ہوا، جیسا کہ غزہ میں دیکھنے میں آیا جبکہ زمینی لڑائی کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف ممالک کے حکام اور اقوام متحدہ کے موجودہ اراکین نے حالیہ واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: زمینی حملے میں حزب اللہ کی کیوں بالا دستی ہے؟صیہونی تجزیہ کار
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی ڈائریکٹر، ریما جاموس امسیس نے حالیہ واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا جنوبی لبنان کے 20 دیہات کو خالی کرنے کا نیا حکم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لبنان کے ایک چوتھائی حصے کو اس وقت خالی کرنے کے احکامات کے تحت ہے۔
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تشویش کے علاوہ، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خطے کے ممالک کے مفادات کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، حالیہ دنوں میں قطر، فرانس، ترکی، اردن اور مصر کے حکام نے بارہا غزہ کی جنگ کے لبنان کی سرزمین تک پھیلنے کے خطرات پر انتباہ کیا ہے۔
اسرائیل کو زمینی جنگ میں درپیش چیلنجز
جنگ میں زمینی حملہ تاریخ میں سلطنتوں اور ریاستوں کے لیے قدیم اور اہم ترین جنگی طریقوں میں سے ایک رہا ہے، عام طور پر سرحدی قربت، دونوں فریقوں کے لیے زمینی جنگ کا آغاز ممکن بناتی ہے اور دوسری جانب اس کے اثرات کا دائرہ وسیع ہونے سے ہر مرحلے پر جنگی فیصلے مزید مشکل ہو جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے موجودہ حالات میں اسرائیل کی جانب سے جنوبی لبنان پر زمینی حملہ تاریخی تناظر میں اور دونوں فریقوں کے درمیان ماضی کی جنگوں کے نتائج کے پیش نظر غیر عقلی قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
لبنان کی ناہموار زمین، مختلف جغرافیائی خصوصیات، جیسے کہ وادیاں وغیرہ، وہ قدرتی عوامل ہیں جو دشمن کی کارروائیوں کو کامیاب کرنے کے امکانات کو انتہائی کم کر دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ان برسوں میں حزب اللہ کے مجاہدین نے پہاڑیوں کے اندر سرنگیں بنا کر لبنان کی جغرافیائی خصوصیات کو بیرونی حملوں کے خلاف مضبوط دفاع میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہی عوامل اسرائیلی حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی کلاسیکی فوج کو میدان میں اتارنے سے پہلے، کمانڈو یونٹوں کو سرحدی دیہات کی طرف روانہ کرے تاکہ وہ لبنانی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ بہتر حکمت عملی اختیار کر سکیں اور اپنی افواج کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھ سکیں۔
جنوبی لبنان میں تازہ ترین میدان جنگ کی صورتحال
اس وقت اسرائیلی فوج چار لشکروں کے ساتھ جنوبی لبنان پر حملہ آور ہے۔ صیہونی فوج نے جنوبی علاقوں سے میس جبیل، کفرکلا، اور العدیسہ کی طرف حملہ کیا، اور بنت جبیل اور مارون الراس کے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی محاذوں پر اسرائیلی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا، اور ان کی پیش گوئی کہ وہ جنوبی لبنان کے علاقوں کو فتح کر لیں گے، ناکام ہو گئی ہے۔
جانی نقصان کے لحاظ سے، اسرائیلی فوج اپنے نقصانات کی درست تعداد بتانے سے گریز کر رہی ہے، لیکن غیر رسمی رپورٹس کے مطابق ان کے تقریباً 500 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 23 اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیل کو زمینی جھڑپوں میں ہونے والے نقصانات، جو میزائل حملوں کی نسبت زیادہ ہیں، اسرائیلی فوج کے پیچھے ہٹنے کا امکان پیدا کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے 2006 کی 33 روزہ جنگ میں، حزب اللہ کی مزاحمتی قوت نے اسرائیل کو اسی طرح کے نقصانات پہنچا کر تل ابیب کو جنگ بندی پر مجبور کیا تھا۔
حزب اللہ کی دشمن کے خلاف طاقت
حزب اللہ نے زمینی حملوں کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے، زیادہ تر راکٹ حملوں، ٹینک شکن میزائلوں اور سڑکوں میں بموں کے دھماکوں کے ذریعے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، حزب اللہ اکثر چھاپہ مار کارروائیوں سے دشمن کو حیران کر دیتا ہے اور اسے بھاری نقصان پہنچاتا ہے۔
اسرائیلی حملوں کا مقصد
اسرائیل اپنے زمینی حملوں کے ذریعے چند بنیادی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پہلا مقصد لبنان میں داخل ہو کر حزب اللہ کی مزاحمتی قوت کے اسلحہ اور جنگی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنا ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شمالی محاذ پر اپنی افواج کی تعداد بڑھا کر وہ حزب اللہ کو زیادہ نقصان پہنچا سکیں گے۔
تیسری حکمت عملی یہ ہے کہ فلسطین کی مقبوضہ سرحد اور جنوبی لبنان کے دیہات کے درمیان ایک بفر زون قائم کیا جائے اور آخرکار رضوان فورسز کے ماہر جنگجوؤں کی الجلیل علاقے میں داخل ہونے کی کارروائیوں کو روکا جائے۔
دوسری جانب، حزب اللہ، جنوبی لبنان کے ماحول سے مکمل واقفیت اور دشمن کی شدید فائر پاور کے باوجود اپنی اعلیٰ لچکدار حکمت عملی کے باعث دشمن کو پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
نتیجہ
بین الاقوامی دباؤ، جنگ کو روکنے کے لیے اور خطے کے ممالک کی جانب سے طویل مدتی مفادات کی حفاظت کے لیے کی جانے والی ثالثی، اسرائیلی فوج کو مشکلات میں ڈال رہی ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، لبنان پر زمینی حملے کے آغاز کے چند دنوں بعد ہی اسرائیلی فوج کے ہلاک اور زخمی ہونے والے اہلکاروں کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی ہے۔
مزید پڑھیں: گولانی بریگیڈ کے خلاف حزب اللہ کی کارروائیوں کا تجزیہ
زمینی جنگ میں رضوان فورسز کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے حزب اللہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اسرائیل کو جنوبی لبنان میں جنگ جاری رکھنے کے حوالے سے سخت انتباہ دیا ہے۔