سچ خبریں: فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں الجزائری نژاد 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت کو تین ماہ گزر چکے ہیں جس سے اس یورپی ملک میں سکیورٹی فورسز کی نسل پرستی کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، ایک بار پھر فرانسیسی شہر پرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں، تاہم اس سارے تشدد کی جڑیں کہاں ہیں اور مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟
حالیہ برسوں میں فرانس میں کئی بار پرتشدد مظاہروں اور پولیس کی بربریت کو دہرایا گیا ہے،پچھلے دسمبر میں ایک مسلح شخص کے ہاتھوں تین کرد شہریوں کے قتل کے بعد شروع ہونے والا احتجاج پنشن قانون میں اصلاحات تک جا پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر
تقریباً تین ماہ قبل نائل مرزوق نامی ایک نوجوان کو پولیس نے تلاشی کے دوران ہلاک کر دیا جس کے بعد یہ احتجاجی لہر دوبارہ شروع ہوئی اور اس نے فرانس کے بیشتر شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یاد رہے کہ اس 17 سالہ الجزائری نوجوان کے قتل نے فرانس میں ادارہ جاتی نسل پرستی کی گہرائی کو ظاہر کیا۔
ایک ایسا مسئلہ جو اس ملک میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور اس کے حکمرانوں نے اس ملک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت پر سخت ترین رکاوٹیں اور پابندیاں عائد کی ہیں۔
اس واقعے کو تین ماہ گزر چکے ہیں لیکن لوگوں کے غصے کے شعلے کم نہیں ہوئے ، حالیہ دنوں میں فرانس میں ہزاروں افراد پولیس کی بربریت کے خلاف ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے اور ملک بھر میں 100 کے قریب احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
یاد رہے کہ مظاہرین نسل پرستی، پولیس کی بربریت، اور بڑھتی ہوئی سماجی عدم مساوات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں جو خاص طور پر مضافاتی علاقوں کو متاثر کرتی ہے۔
حالیہ مظاہروں کے دوران تین پولیس اہلکار زخمی اور چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
مزید پڑھیں: فرانس میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق یہ مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب عالمی کیتھولک رہنما پوپ فرانسس کی بندرگاہی شہر مارسیلی میں آئے،تاہم تقریب انتہائی حفاظتی ماحول اور سخت حفاظتی اقدامات کے تحت ہوئی۔
فرانس 24 ٹیلی ویژن چینل نے بھی اعلان کیا کہ اس ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو فرانسیسی سنیما کی 150 ممتاز شخصیات کی حمایت حاصل ہے جن میں Palme d’Or 2023 کے ڈائریکٹر جسٹن ٹریر بھی شامل ہیں۔